بالی وڈ کے لیجنڈ اداکار یوسف خان عرف دلیپ کمار 98 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق دلیپ کمار کو سانس لینے میں دشواری پر 30 جون کو ممبئی کے ایک اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ طبیعت بگڑنے پر انہیں انتہائی نگہداشت یونٹ میں بھی منتقل کیا گیا تاہم بدھ کو وہ اسپتال میں ہی دم توڑ گئے۔
دلیپ کمار کی تدفین ممبئی کے جوہو قبرستان میں کر دی گئی ہے۔ انہیں سرکاری اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔
دلیپ کمار نے اپنے فلمی کریئر میں متعدد بلاگ بسٹرز فلمیں کیں جن میں نیا دور، مغلِ اعظم، دیوداس، رام اور شام، انداز، مدھومتی اور گنگا جمنا جیسی فلمیں شامل ہیں۔
انہوں نے اپنے فلمی سفر کا آغاز 1944 میں ریلیز ہونے والی فلم 'جوار بھاٹا' سے کیا۔ بعدازاں 1947 میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم 'جگنو' نے باکس آفس پر دھوم پر کام یابی حاصل کی۔
دلیپ کمار نے فلمی دنیا کے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے تھے اور انہیں پہلا فلم فیئر ایوارڈ حاصل کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ انہوں نے مجموعی طور پر آٹھ فلم فیئر ایوارڈز حاصل کیے۔
بھارت کی حکومت نے 1991 میں دلیپ کمار کو سب سے اعلیٰ سویلین ایوارڈ 'پدم بھوشن' سے نوازا تھا جب کہ انہیں بالی وڈ فلم نگری کا سب سے معتبر ایوارڈ 'دادا صاحب پھالکے' 1994 میں دیا گیا۔
حکومتِ پاکستان نے بھی 1998 میں دلیپ کمار کو اعلیٰ سویلین ایوارڈ 'نشانِ امتیاز' سے نوازا تھا۔
دلیپ کمار دسمبر 1922 کو پشاور کے محلہ خداداد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مقامی درس گاہوں میں ہی حاصل کی۔
دلیپ کمار نے 1966 میں اپنی ساتھی اداکارہ سائرہ بانو سے شادی کی، سائرہ نے دلیپ کے ساتھ فلم گوپی، سگینہ اور بیراگ میں کام کیا تھا۔
یوسف خان فلم انڈسٹری میں کس طرح متعارف ہوئے؟
یوسف خان کے والد خشک میووں اور پھلوں کے تاجر تھے جو اپنے کاروبار کے سلسلے میں کوئٹہ، بمبئی اور کلکتہ جاتے رہتے تھے۔ انہوں نے 1930 کی دہائی میں سکونت کے لیے بمبئی کا انتخاب کیا اور یہیں سے یوسف خان کے لیے وہ راہیں کھلیں جن سے گزرتے ہوئے وہ برصغیر کے مقبول ترین فلمی ستاروں کی صف میں جاکھڑے ہوئے۔
اپنے دورِ طالب علمی میں وہ بمبئی کے ایک ماہر نفسیات ڈاکٹر مسانی سے متعارف ہوئے تھے۔ ایک روز ڈاکٹر صاحب نے یوسف کو بتایا کہ وہ مشہور اداکارہ اور فلم سازی کے مرکز بومبے ٹاکیز کی مالکن دیویکا رانی سے ملنے جا رہے ہیں، اگر وہ ساتھ چلنا چاہیں تو چل سکتے ہیں۔
دیویکا رانی صرف اداکارہ نہیں تھیں انہیں ہندوستانی سنیما کی خاتون اوّل کہا جاتا تھا۔ یوسف خان اپنے ڈاکٹر دوست کے ہمراہ جب دیویکا رانی کے گھر پہنچے تو دیوکا کی جوہر شناس نظر نے یوسف میں اداکاری کی صلاحیتیں بھانپ لی تھیں۔
دیویکا نے وہیں یوسف خان کو فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی اور 1250 روپے تنخواہ کی پیش کش کی۔
دلیپ کمار نے اپنی خود نوشت 'Dilip Kumar; The Substance and the Shadow' میں لکھا ہے کہ جب دیویکا نے انہیں فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی تو انہوں ںے جواب دیا کہ وہ اس کام کا تجربہ نہیں رکھتے۔ دیوکا نے جھٹ جواب دیا کہ تم اپنے پھلوں کے آبائی کام کا بھی کتنا تجربہ رکھتے ہو۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ابھی وہ یہ کام سیکھ رہے ہیں۔
اس دن یوسف خان کوئی جواب دیے بغیر ڈاکٹر مسانی کے ساتھ واپس آ گئے۔ انہوں ںے اپنے بھائی ایوب خان سے اس پیش کش کا تذکرہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ تمھیں سننے میں غلط فہمی ہوئی ہوگی۔
دلیپ کمار اپنی خود نوشت میں مزید لکھتے ہیں جب ایوب خان نے انہیں بتایا کہ ان کے دوست راج کپور جو فلموں میں کام کرتے ہیں ان کی تنخواہ 170 روپے ماہوار ہے یہ سن کر دلیپ کمار کو بھی اپنے بھائی کی بات درست محسوس ہوئی۔
انہوں نے یہ سوال ڈاکٹر مسانی کے سامنے رکھ دیا۔ ڈاکٹر مسانی کو یقین تھا کہ یہ رقم 1250 روپے ماہانہ ہی ہے پھر بھی ان کی تسلی کے لیے انہوں ںے دیویکا رانی سے رابطہ کیا جس کے بعد یہ واضح ہوا کہ دیویکا رانی نے انہیں ماہانہ تنخواہ کے لیے 1250 روپے کی پیش کش کی تھی جسے یوسف خان سالانہ سمجھ بیٹھے تھے۔
یوسف خان سے دلیپ کمار تک
ممبئی ٹاکیز کی مالکہ دیویکا رانی نے یوسف خان سے کہا تھا کہ "یوسف میں تمہیں بحیثیت اداکار متعارف کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہوں اور میرا خیال ہے کہ اگر تم ایک فلمی نام اپناؤ تو یہ کوئی برا خیال نہیں ہوگا۔ ایسا نام جس سے تم جانے اور پہچانے جاؤ گے اور جو پردہ سیمیں پر ظاہر ہونے والے تمہارے رومانی کردار کا موزوں ہوگا۔"
اس طرح یوسف خان فلمی دنیا کے لیے دلیپ کمار ہوگئے اور 1944 میں ریلیز ہونے والی فلم 'جوار بھاٹا' سے انہوں نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا۔
یوسف خان نے فلم میں کام کرنے کی بات اہلِ خانہ سے ایک ماہ تک چھپائی رکھی۔ گھر میں صرف ان کے بڑے بھائی ایوب خان کو ہی معلوم تھا کہ یوسف بمبئی ٹاکیز میں ملازم ہو چکے ہیں۔
فلم میں کام کرنے کا معاہدہ چھپانے کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے والد سرور خان روایتی سوچ رکھتے تھے اور فلموں میں کام کرنے والوں کا شمار شرفا میں نہیں کرتے تھے۔
دوسرا ممکنہ سبب یہ تھا کہ ایک نجومی نے یوسف خان کے بارے میں ان سے کہا تھا کہ یہ لڑکا اداکار بنے گا تو سرور خان کو یہ پیش گوئی ناگوار گزری تھی۔
یوسف خان اب دلیپ کمار کے نام سے فلمی دنیا میں دھماکے دار انٹری دے چکے تھے۔ وہ ابتدا ہی میں فلم بینوں اور فلم سازوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کام یاب رہے۔
دلیپ کمار اپنی ڈیبیو فلم 'جوار بھاٹا' سے تو اتنے مقبول نہ ہوئے لیکن دیوداس، مغلِ اعظم، انداز، آن، آزاد، کنگا جمنا، شکتی، کرما، کرانتی، سوداگر اور دیگر کئی ایسی فلمیں ہیں جن میں انہوں نے اداکاری کے جوہر دکھا کر اپنی الگ پہچان بنائی۔
دلیپ کمار کی آخری فلم 'قلعہ' تھی جو 1998 میں اسکرین پر نمودار ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے کسی فلم میں کام نہیں کیا۔ لیکن پرستاروں کے دل میں ان کی محبت قائم رہی۔
فلم مبصرین کا کہنا ہے کہ دلیپ کمار کی اداکاری کا فن انڈسٹری میں نئے آنے والوں کے لیے ایک معیار ہے۔ یہ فن کار رخصت ہوا لیکن اس کا نام ایک فن کی پہچان بن کر زندہ رہے گا۔
دلیپ کمار کے انتقال پر بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ بھارت اور پاکستان کے سیاسی رہنماؤں اور سماجی شخصیات نے بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم مودی نے دلیپ کمار کے انتقال پر اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ دنیائے فلم میں انہیں ہمیشہ لیجنڈ کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور ان کا انتقال بھارت کی ثقافتی دنیا کا نقصان ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنے ٹوئٹ میں لیجنڈ فن کار دلیپ کمار کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے شوکت خانم اسپتال کے لیے ان کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
اس کے علاوہ بالی وڈ ستاروں امیتابھ بچن، شاہ رخ خان، سلمان خان، سنجے دت، انیل کپور، اکشے کمار اور دیگر فنکاروں اور دلیپ کمار کے مداحوں کی جانب سے ان کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
امیتابھ بچن نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ایک یادگار عہد تمام ہوا جو اب کبھی دہرایا نہ جائے گا۔ اداکار سلمان خان نے بھی اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ وہ انڈین سنیما میں ایسا اداکار کبھی نہیں آئے گا۔
لیجنڈ گلوکارہ لتا منگیشکر، آشا بھوسلے،بالی وڈ کی معروف اداکارہ شبانہ اعظمی کترینہ کیف، شلپا شیٹھی، عالیہ بھٹ اور دیگر نے بھی سوشل میڈیا پر دلیپ کمار کو خراج تحسین پیش کیا۔
سوشل میڈیا پر دلیپ کمار کے مداحوں اور بالی وڈ فنکاروں کی جانب سے انھیں خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔