رسائی کے لنکس

بھارت: ’پیگاسس‘ جاسوسی کے معاملے پر 500 سے زائد شخصیات کا چیف جسٹس کے نام خط


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی 500 سے زائد نمایاں شخصیات نے چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کے نام ایک کھلے خط میں ان سے مبینہ ’پیگاسس‘ جاسوسی کے معاملے میں مداخلت اور حکومت سے جواب طلب کرنے کی اپیل کی ہے۔

چیف جسٹس کو خط لکھنے والوں میں​ صحافی، مصنف، انسانی حقوق کے کارکن، وکلا، طلبہ اور فنکار شامل ہیں۔

مشترکہ خط میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ اسرائیل کے ’اسپائی ویئر‘ کی ذریعے ججوں، سیاست دانوں، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور دیگر افراد کی جاسوسی شہریوں کی پرائیویسی، ذاتی آزادی اور زندگی جینے کے ان کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔

یاد رہے کہ متعدد میڈیا اداروں پر مشتمل ایک بین الاقوامی کنسورشیم نے 50 ہزار ٹیلی فون نمبروں کی جانچ کے بعد اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل کی ایک کمپنی ’این ایس او گروپ‘ کے پیگاسس سافٹ ویئر کی مدد سے لوگوں کی جاسوسی کی گئی۔

اس سلسلے میں نئی دہلی کے ایک ڈیجٹل میڈیا ادارے ’دی وائر‘ نے 18 جولائی کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں 300 سے زائد شخصیات کی جاسوسی کی گئی جن میں ججوں، کارپوریٹ نمائندوں، سیاست دان اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے علاوہ 40 سے زائد صحافی بھی شامل ہیں۔

بھارت کی حزبِ اختلاف اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث اور مشترکہ پارلیمانی کمیٹی سے تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس معاملے پر پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے سوال اٹھانے اور حکومت سے سوال پوچھنے کی وجہ سے ہنگامہ آرائی جاری ہے جس کی وجہ سے پارلیمانی کارروائی میں رکاوٹ آ رہی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ہمیں امید ہے کہ چیف جسٹس وقت ضائع کیے بغیر اس معاملے پر کارروائی کریں گے اور ملکی آئین کے دفاع، آئینی اداروں کے وقار اور شہریوں کی آزادی کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر حکومت کو وقت مقررہ کے اندر جواب دینے کی ہدایت کریں گے۔

خط کے مطابق پیگاسس جاسوسی اسکینڈل کے سلسلے میں جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں اس سے سپریم کورٹ کی آزادی سمیت تمام آئینی اداروں کا وقار مجروح ہوا ہے۔

مذکورہ خط میں سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بھارت میں پیگاسس کی درآمد، خرید اور استعمال پر فوری طور پر پابندی لگائے۔

خط لکھنے والی شخصیات نے مبینہ جاسوسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسپائی ویئر حکومتوں کو انسدادِ دہشت گردی کے لیے فروخت کیا جاتا ہے لیکن اسے خواتین، طلبہ، ماہرینِ تعلیم، انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلا اور جنسی ہراسانی کے شکار لوگوں کی جاسوسی میں استعمال کیا گیا۔

خط لکھنے والے میں شامل نمایاں شخصیات

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے نام لکھے گئے اس خط پر ارونا رائے، انجلی بھاردواج، کویتا کرشنا مورتی، ہرش مندر اور جان دیال جیسے انسانی حقوق کے کارکنوں اور ورندا گروور اور جھوما سین جیسے سینئر وکلا کے دستخط بھی ہیں۔

خط لکھنے والوں میں ماہرینِ تعلیم زویا حسن اور رومیلا تھاپر اور مصنفین میں سے ارون دھتی رائے، گیتا ہری ہرن اور وی گیتا جیسی نمایاں شخصیات بھی شامل ہیں۔

اس خط پر سیاست دان منوج جھا اور صحافی انورادھا بھسین نے بھی دستخط کیے ہیں۔

’سنگین ترین معاملہ‘

خط کے ایک دستخط کنندہ، انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور سابق اعلیٰ سرکاری افسر ہرش مندر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اب تک ملک میں فون ٹیپنگ اور نگرانی وغیرہ کے جتنے بھی معاملات سامنے آئے ہیں ان میں یہ سب سے سنگین اور خطرناک معاملہ ہے۔

ان کے مطابق جو حقائق سامنے آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ شہریوں کی کوئی بھی معلومات نجی نہیں رہی۔ اگر کسی حکومت کے پاس شہریوں کے بارے میں ہر قسم کی معلومات ہوں یہاں تک کہ ان کے کس سے رشتے ہیں اور کس سے نہیں یا وہ کس سے کیا بات کر رہے ہیں تو یہ بہت سیدھا سادہ معاملہ نہیں ہے۔

ان کے خیال میں پیگاسس اسپائی ویئر کی مدد سے لوگوں کی جاسوسی کرنا حکومت کی جانب سے آزاد آوازوں کو دبانے کی کوشش ہے۔ سیاسی نظریات سے قطع نظر اب کسی بھی شخص کی کوئی بھی بات پوشیدہ نہیں رہ گئی ہے۔

ہرش مندر نے کہا کہ اپوزیشن اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے اس معاملے کی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن حکومت اس کی تحقیقات کرانے سے کترا رہی ہے۔

ان کے بقول اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اس معاملے میں ملوث ہے اور وہ عوام کے سامنے بے نقاب نہیں ہونا چاہتی۔

ہرش مندر نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا سے ہمیں امید ہے کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں گے۔

ان کے بقول چیف جسٹس نے بعض معاملات میں اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں ایسے فیصلے سنائے ہیں جو حکومت کے لیے پریشان کن ہیں۔ اسی لیے ہم نے ان سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں آئینی اداروں پر پورا اعتماد ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ چیف جسٹس اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھائیں گے۔

’پیگاسس کے بارے میں سنسنی خیز خبر سے اتفاق نہیں‘

دیں اثنا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مرکزی وزیر اشون ویشنو کا کہنا ہے کہ میڈیا کی جانب سے جاری کی جانے والی پیگاسس رپورٹ کا مقصد بھارت کی جمہوریت کو بدنام کرنا ہے۔

انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ پارلیمنٹ کے مون سون اجلاس سے ایک روز قبل پیگاسس کے بارے میں سنسنی خیز خبر کی اشاعت اتفاق نہیں ہو سکتا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے مخصوص افراد کی جاسوسی کے الزام کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔ بھارت ایک مضبوط جمہوریت ہے جو کہ تمام شہریوں کی پرائیویسی کے بنیاد حق کا تحفظ کرتی ہے۔

ان کے بقول اس سے قبل بھی ماضی میں حکومت پر واٹس ایپ پر پیگاسس اسپائی ویئر کے استعمال کا دعویٰ کیا گیا تھا جس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں تھی اور واٹس ایپ سمیت دیگر فریقین نے سپریم کورٹ میں اس الزام کی تردید کی تھی۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر نے اسی قسم کا بیان پارلیمنٹ میں بھی دیا تھا۔ جب کہ بی جے پی کے متعدد وزرا نے بھی جاسوسی کے الزام کی تردید کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ حکومت کو بدنام کرنے کے لیے جاری کی گئی ہے۔

’یہ کوئی معاملہ ہی نہیں‘

ایک اور مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نے جمعے کے روز کہا تھا کہ پیگاسس کا معاملہ کوئی معاملہ ہی نہیں ہے اور حکومت عوامی مفاد سے متعلق امور پر ایوان میں بحث کرانے کے لیے تیار ہے۔

انھوں نے پارلیمنٹ میں وقفہ سوالات کے دوران اپوزیشن سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر ہنگامہ بند کرے اور ایوان کی کارروائی چلنے دے۔

سینئر کانگریس رہنما ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ ہم حکومت سے صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس نے جاسوسی کرائی ہے یا نہیں۔ لیکن وہ اس سیدھے سوال کا کوئی جواب نہیں دے رہی ہے اور نہ ہی اس پر پارلیمنٹ میں بحث کرانے کے لیے تیار ہے۔

دریں اثنا سپریم کورٹ نے سینئر صحافی این رام اور ششی کمار کی اس درخواست پر سماعت کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے جس میں عدالت سے پیگاسس جاسوسی معاملے کی سپریم کورٹ کے کسی موجودہ یا پھر ریٹائرڈ جج سے آزادانہ جانچ کرانے کی اپیل کی گئی ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے این رام کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل کے اس الزام پر غور کیا کہ مبینہ جاسوسی معاملے کے وسیع اثرات کے پیش نظر مذکورہ درخواست پر سماعت کی جائے۔

کپل سبل کے مطابق یہ فوری توجہ کا متقاضی ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے اور اس کا ذکر صرف بھارت میں نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اس معاملے پر آئندہ ہفتے سماعت کریں گے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG