وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ایک خصوصی ایڈوائزری جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کی حساس معلومات واٹس ایپ اور ایسی دیگر ایپلی کیشنز کے ذریعے شئیر نہ کی جائیں۔ یہ ایڈوائزری پاکستان میں مبینہ طور پر ایک اسرائیلی کمپنی این ایس او کی جانب سے فیس بک اور وٹس ایپ کے ذریعے حساس معلومات چوری کیے جانے کی اطلاعات پر جاری کی گئی ہے۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مطابق، اسرائیل کی سائبر انٹیلی جنس کمپنی این ایس او نے حساس معلومات تک رسائی کے لیے ایک خاص ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔
29 اکتوبر کو واٹس ایپ، فیس بک نے سان فرانسسکو کی ایک عدالت میں امریکی قوانین اور واٹس ایپ کے ٹرمز آف سروس کی خلاف ورزی پر کمپنی کے خلاف دعویٰ دائر کیا۔ اس کمپنی نے پیگاسس نامی میل وئیر جاری کیا ہے جسے جاسوسی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ یہ میل وئیر 28 اپریل سے 10 مئی کے دوران پھیلایا گیا جس کی زد میں پاکستان سمیت 20 ممالک آئے۔
ان ملکوں میں 1400 سینئر فوجی اور حکومتی عہدے داروں کے موبائل فون میل وئیر سے متاثر ہوئے۔ یہ میل وئیر آئی او ایس اور اینڈرائڈ ہر قسم کی فون کال پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور صرف واٹس ایپ پر مسڈ کال کے ذریعے بھی اس پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کہنا ہے کہ اس میل وئیر کی زد میں آنے کے خدشے کے پیش نظر ان تمام افسران اور حکام کو، جن کا تعلق نیشنل سیکیورٹی سے ہے، ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی حساس معلومات واٹس ایپ یا ایسی کسی بھی اپیلی کیشن کے ذریعے شئیر نہ کریں۔ ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ واٹس ایپ کو اس کے جدید ورژن کے مطابق اپ گریڈ کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ 10 مئی 2019 سے قبل خریدے گئے تمام موبائل تبدیل کر دیے جائیں۔
سیکرٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی شعیب احمد صدیقی کے دستخط سے جاری یہ خط تمام سیکرٹریز کو بھجوا دیا گیا ہے۔
پیگاسس میل وئیر کی زد میں آنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے اور اس میل ویئر کے ذریعے حکومتی اور فوجی عہدے داروں کے موبائل فون ڈیٹا تک رسائی حاصل کی گئی۔ تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ پاکستان میں کن عہدے داروں کے موبائل فونز اس میل ویئر کا نشانہ بنے ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے اس سلسلے میں خاصی تاخیر سے ایڈوائزری جاری کی ہے۔ اس سے قبل بھارت سے بھی ایسی ہی اطلاعات سامنے آئی تھیں جس کے مطابق وہاں121 موبائل فونز متاثر ہونے کی نشاندہی ہوئی، جن میں مختلف اعلیٰ حکام بھی شامل ہیں۔