رسائی کے لنکس

افغانستان سے ہندوؤں اور سکھوں کا انخلا، بھارت میں متنازع شہریت بل پھر زیرِ بحث


کابل سے بھارت پہنچنے والے افراد غازی آباد ایئر پورٹ سے باہر آ رہے ہیں۔
کابل سے بھارت پہنچنے والے افراد غازی آباد ایئر پورٹ سے باہر آ رہے ہیں۔

بھارت کی جانب سے افغانستان سے اپنے شہریوں، افغان ہندوؤں اور سکھوں کو بحفاظت نکالنے کا عمل جاری ہے۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک 800 سے زائد افراد کو کابل سے بھارت لایا جا چکا ہے جن میں افغانستان میں بھارت کے سفیر اور سفارتی عملے کے لوگ بھی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ اب تک 46 افغان ہندو اور سکھ بھی بھارت آ چکے ہیں۔

وزارتِ داخلہ نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ کابل پر طالبان کے قبضے اور پیدا شدہ بحران کے بعد جو لوگ افغانستان سے پناہ گزین کی حیثیت سے بھارت آنا چاہتے ہیں وہ صرف الیکٹرونک ویزا یا ای ویزا کے توسط سے ہی آ سکتے ہیں۔

ادھر مرکزی وزیر ہردیپ سنگھ پوری کے مطابق بھارتی شہریوں کے ساتھ کابل میں پھنسے ہوئے 46 افغان ہندو اور سکھ بھی بھارت پہنچ گئے ہیں۔

انڈین ورلڈ فورم کے صدر پنیت سنگھ چنڈھوک نے جو کہ شہریوں کو افغانستان سے نکالنے میں وزارتِ خارجہ اور بھارتی فضائیہ کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں نے خبر رساں ادارے 'پریس ٹرسٹ آف انڈیا' (پی ٹی آئی) کو بتایا کہ تقریباً 200 افغان سکھ اور ہندو اب بھی کابل سے نکلنا چاہتے ہیں جنہوں نے ایئرپورٹ کے قریب ایک گوردوارے میں پناہ لے رکھی ہے۔

انڈین ورلڈ فورم کے مطابق افغانستان میں سکھوں اور ہندوؤں کی بہت کم آبادی ہے۔ مجموعی طور پر 1300 افغان سکھ اور 600 افغان ہندو وہاں پر ہیں۔

افغانستان میں موجود ایک افغان سکھ چرن سنگھ نے اخبار 'ٹائمز آف انڈیا' کو بتایا کہ طالبان کے ایک گروپ نے گوردوارہ کرتے پروان میں سکھوں اور ہندوؤں کے نمائندوں سے ملاقات کر کے اُن سے کہا ہے کہ طالبان جنگجوؤں سے خوفزدہ نہ ہوں اور ملک نہ چھوڑیں۔

بھارتی فضائیہ خصوصی پروازوں کے ذریعے اپنے شہریوں کو افغانستان سے نکال رہی ہے۔
بھارتی فضائیہ خصوصی پروازوں کے ذریعے اپنے شہریوں کو افغانستان سے نکال رہی ہے۔

چرن سنگھ کے بقول طالبان جنگجوؤں نے مذکورہ ہندوؤں اور سکھوں کو اپنے نمبرز بھی دیے ہیں کہ کسی بھی مشکل کی صورت میں اُن سے رابطہ کریں۔

البتہ چرن سنگھ کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان کی سیکیورٹی کے حالات تشویش ناک ہیں۔ جنگ زدہ ملک میں کوئی بھی شخص اپنی کوششوں سے ہی بچ سکتا ہے۔ ہم لوگ چھ برس طالبان کی حکومت میں گزار چکے ہیں۔ ہمیں ان سے کوئی خوف نہیں ہے۔ اس وقت ہمیں جنگ اور لوٹ مار سے ڈر لگ رہا ہے۔

ایک افغان سکھ سیاست دان نے جو بھارت آ چکے ہیں نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں اقلیتیں خوف و دہشت میں رہ رہی ہیں۔

اُن کے بقول حالاں کہ ہم لوگ نسل در نسل افغانستان میں رہ رہے ہیں لیکن ہم نے ایسے حالات پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ 20 برس سے جو جمہوری حکومت چل رہی تھی وہ بھی ختم ہو گئی ہے۔

شہریت ترمیمی بل پھر موضوع بحث

ادھر مرکزی وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کے حالات سے پتا چلتا ہے کہ شہریت کا ترمیمی قانون 'سی اے اے' کتنا ضروری ہے۔

انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ہمارے پڑوس میں پیش آنے والے واقعات اور خوفناک حالات کی وجہ سے سکھوں اور ہندوؤں کو جن مشکلات سے گزرنا پڑ رہا ہے اس سے 'سی اے اے' کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

ان کے اس بیان کے بعد 'سی اے اے' کی بحث ایک بار پھر تیز ہو گئی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت افغانستان کے حالات کو 'سی اے اے' سے جوڑ کر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ اس معاملے میں حکومت کا مؤقف کتنا درست تھا۔

خیال رہے کہ بھارت کی پارلیمان نے گزشتہ برس متنازع شہریت بل منظور کیا تھا جس میں بھارت میں رائج 1955 کے شہریت قانون میں ترمیم کی گئی تھی۔ نئے بل میں پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کے بعد بھارت آنے والے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی برادری کے افراد کو شہریت دینے کی اجازت دی گئی تھی۔

بل میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے پر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جواہر لعل نہرو (جے این یو) سے وابستہ ڈاکٹر انل دتا مشرا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان کا مسئلہ ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کا نہیں بلکہ انسانیت کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں صرف ہندوؤں اور سکھوں کے ہی حالات خراب نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کا بھی قتل ہو رہا ہے۔ مسلمان ہی مسلمان کو مار رہا ہے۔

ان کے بقول بھارت کے عوام اس معاملے کو انسانی نکتۂ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ لیکن حکومت کے سامنے کئی معاملات ہوتے ہیں۔ اسے سیاست بھی دیکھنی ہے اور پارٹی معاملات کو بھی دیکھنا ہے۔ اسے ووٹ پر بھی توجہ دینی ہے۔ اس لیے حکومت اگر صرف ہندوؤں اور سکھوں کی بات کر رہی ہے تو یہ اس کی مجبوری ہے۔

صرف ہندوؤں اور سکھوں کا افغانستان سے انخلا کرنے پر بھارتی حکومت پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
صرف ہندوؤں اور سکھوں کا افغانستان سے انخلا کرنے پر بھارتی حکومت پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ صرف ہندو اور سکھ ہی افغانستان سے آ رہے ہیں بہت سے مسلمان بھی آئے ہیں۔ لیکن حکومت ایک مصلحت کے تحت صرف ہندوؤں اور سکھوں کا نام لے رہی ہے۔ تاہم وزیر اعظم نریندر مودی نے کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں افغان شہریوں کی بات کہی تھی۔

انل دتا مشرا نے کہا کہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے۔ یہاں حکومت کو مذہب کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم انہوں نے ملکی سیاست کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کی وجہ سے بھی بیانات بنائے اور بدلے جاتے ہیں۔

ان کے خیال میں بھارت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ پیدا ہو گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان آگئے ہیں۔ لیکن جب سے طالبان نے کابل پر قبضہ کیا ہے بھارت کی جانب سے بہت محتاط انداز میں معاملات کو دیکھا جا رہا ہے۔

ان کے مطابق متعدد مسلمان بھی بھارت آئے ہیں۔ لیکن یہ بات خبروں میں نہیں آ رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میڈیا پر صنعت کاروں اور حکومت کا قبضہ ہے۔ میڈیا اداروں کے اپنے مفادات ہیں۔ لہٰذا میڈیا میں ابھی تک یہ بات نہیں آ سکی ہے کہ افغانستان سے پریشان حال مسلمان بھی آ رہے ہیں۔

آئین و قانون کے ماہر اور نلسار یونیورسٹی حیدرآباد کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ ہردیپ سنگھ پوری کا یہ بیان درست نہیں ہے کہ افغانستان کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ سی اے اے بہت ضروری ہے۔

انہوں نے اپنے یو ٹیوب پروگرام ”لیگل اویئرنیس ویب سیریز“ میں کہا کہ 'سی اے اے' کے قانون میں کہا گیا ہے کہ دسمبر 2014 سے قبل پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے مذہب کی بنیاد پر ستائے ہوئے اقلیتی برادری کا جو بھی فرد بھارت میں داخل ہو گیا اسے شہریت مل جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ دسمبر 2014 کے بعد مذکورہ ملکوں میں مذہب کی بنیاد پر زیادتی ختم ہو گئی ہے۔ یہ جو مصنوعی تاریخ مقرر کی گئی تھی افغانستان کی صورتِ حال نے ثابت کیا ہے کہ وہ تاریخ غلط تھی۔

خیال رہے کہ پاکستان اپنے ہاں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی کے الزام کی سختی سے تردید کرتا رہا ہے۔

پروفیسر فیضان کا کہنا تھا کہ اس وقت اقلیتی برادریوں کے جو لوگ افغانستان سے بھارت میں آ رہے ہیں ان کو سی اے اے کا فائدہ نہیں ملے گا کیونکہ وہ بھارت میں 2014 کے بعد داخل ہو رہے ہیں۔ لہٰذا یہ دلیل متضاد ہے کہ افغانستان کے بحران نے سی اے اے کی ضرورت کو ثابت کر دیا ہے جب کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔

ان کے خیال میں افغانستان کے بحران نے ثابت کیا کہ 2014 سے پہلے بھی مختلف ملکوں میں مذہب کی بنیاد پر زیادتی ہوتی تھی اور آج بھی ہو رہی ہے۔

ان کے مطابق وہاں ہزارہ، شیعہ اور آزاد خیال مسلمانوں کو بھی خوف و دہشت لاحق ہے۔ عورتوں کو بھی ڈر ہے۔ لہٰذا صرف دو مذہب کے لوگوں کو نکالنا اور وہاں سے لانا بھارت کے آئینی نظام اور اس کی اقدار سے متصادم ہے۔

ایک تجزیہ کار آلوک موہن نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہردیپ سنگھ پوری نے مذکورہ بیان دے کر ایک بار پھر سی اے اے کے تنازع کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اس سے فائدہ اٹھایا جائے۔

ان کے مطابق حکومت نے بھی سیاسی مقصد کے تحت ہی افغانستان سے ہندوؤں اور سکھوں کو نکالنے کی بات کہی ہے۔

کابل ایئر پورٹ پر وی او اے کی نامہ نگار نے کیا دیکھا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:21 0:00

دہلی یونیورسٹی کے استاد پروفیسر اپورو انند نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جو لوگ افغانستان سے بھارت آرہے ہیں ان کو سی اے اے کے تحت شہریت نہیں مل سکتی۔ البتہ سی اے اے کے توسط سے یہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بھارت ہندوؤں کا ملک ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں کی حکومت افغانستان کے معاملے کو سیاسی چشمے سے دیکھ رہی ہے اور یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے۔

ان کے بقول پوری دنیا میں کسی بھی ملک نے افغانستان سے لوگوں کو نکالنے کے لیے ایسی کوئی شرط نہیں رکھی ہے جیسی کہ بھارت نے رکھی۔ یعنی صرف ہندوؤں اور سکھوں کو نکالا جائے گا۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت مذہب کے معاملے پر جانب داری کے الزامات کی ماضی میں تردید کرتی رہی ہے۔ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اور حکومتی وزرا مختلف مواقع پر واضح کر چکے ہیں کہ بھارت میں ہر مذہب کے رہنے والے کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG