اقوام متحدہ کے حقوقِ انسانی کے دفتر نے افغانستان میں پرامن احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں پر طالبان کی جانب سے سخت کارروائی کرنے کی مذمت کی ہے، اس مظاہرے میں خصوصی طور پر خواتین شامل تھیں، جو معاشرے میں خواتین کے حقوق پر طالبان کی پابندیوں کے ماحول میں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔
ممکنہ خدشات کے باوجود، افغان خواتین اور مرد حضرات نے اپنے بنیادی حقوق کے دفاع میں سڑکوں کر رخ کیا۔ اقوام متحدہ کے مبصرین کا کہنا ہے کہ خواتین کام کاج کرنے، نقل و حرکت کی آزادی، تعلیم کے حق اور عام معاملات میں شرکت کے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہی تھیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کی ترجمان، روینہ شام داسانی نے کہا ہے کہ طالبان نے ایسے احتجاجی مظاہرے کو کچلنے کی کوشش کی جسے بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت تحفظ حاصل تھا۔
شام داسانی نے کہا کہ ''ہم نے اسلحے کے آزادانہ استعمال کا حربہ دیکھا، جب کہ بتایا یہ جا رہا ہے کہ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوا میں فائرنگ کی جا رہی تھی۔ اس دوران مظاہرین ہلاک ہوئے۔ ساتھ ہی، شدید مارپیٹ کی بھی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ گھروں کی تلاشی سے متعلق بھی خبریں ملی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اس تلاشی کا مقصد احتجاج کرنے والوں کو شناخت کرنا تھا''۔
اطلاعات کے مطابق اسی ہفتے طالبان نے مبینہ طور پر بغیر اجازت اکٹھے ہونے اور جلوس نکالنے پر پابندی لگا دی ہے اور ذرائع مواصلات کے اداروں کو احکامات جاری کیے گئے ہیں کہ وہ دارالحکومت کابل کے مخصوص علاقوں کو انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سروس بند کر دیں۔
شام داسانی نے کہا کہ ان کے دفتر کو باوثوق ذرائع سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن کا تعلق خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنان اور ان صحافیوں سے ہے جو ملک میں ہونے والے احتجاج کی کوریج کر رہے تھے کہ انھیں مبینہ طور پر گرفتار کیا گیا اور بری طرح سے مارا پیٹا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ان واقعات میں چار ہلاکتیں ہوئی ہیں جن کی تصدیق کی جا چکی ہے، جب کہ ممکن ہے کہ یہ تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو۔
شام داسانی کے بقول، ''افغانستان پر اس وقت طالبان کا قبضہ ہے اور ہم ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی پاسداری کریں، جس پر افغانستان نے دستخط کیے ہیں۔ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے کہ مخالفت کو دبانے کے لیے کسی صورت طاقت کا استعمال جائز نہیں ہے۔ یہ بات کسی کے بھی مفاد میں نہیں کہ سڑکوں پر کسی قسم کی خونریزی کے واقعات ہوں۔ یہ بات معاشرے کی مضبوطی یا استحکام کا باعث نہیں بنتی''۔
انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں جو بات معاون ہو گی وہ یہ ہے کہ سب کی شراکت کے ساتھ امور مملکت چلائے جائیں جس کے لیے بہتر انداز یہی ہو گا کہ عوام کی شکایات پر دھیان دینے کے لیے طالبان حکمران لوگوں کی بات سنیں۔
عالمی ادارے کی عہدے دار نے طالبان پر زور دیا کہ وہ افغان عوام کے اجتماع کی آزادی کے حق کے استعمال کی حرمت کے تقاضے پورے کریں، جو سڑکوں پر پرامن احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں۔