افغانستان سے شائع والے روزنامہ ’اطلاعات روز‘ کے مدیر ذکی دریابی نے ایک بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کے اخبار سے منسلک دو صحافیوں کو طالبان کی حراست میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ذکی دریابی نے ٹوئٹر پر دونوں مرد صحافیوں کی تصاویر شئیر کیں جس میں ان کی کمر، ٹانگوں اور چہرے پر تشدد کے نشانات دیکھے جاسکتے ہیں۔ خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق،دونوں پر تشدد کی تصاویر کی ادارے نے تصدیق کی ہے۔
رائیٹرز کے مطابق، جب ان تصاویر کے بارے میں طالبان کے ایک سینئر وزیر سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنے ردعمل میں کہا کہ صحافیوں پر حملے کے واقعات کی تحقیق کی جائے گی۔
'اطلاعات روز' کے مدیر ذکی دریابی نے رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اس قسم کے تشدد نے افغانستان میں میڈیا کے لیے تشویش کا پیغام دیا ہے۔
اس واقعے کے ایک روز بعد انہوں نے جمعرات کے روز رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا ’’پانچ ساتھیوں کو چار گھنٹے تک حراستی سینٹر رکھا گیا، ان چار گھنٹوں کے دوران ہمارے دو ساتھیوں کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔‘‘
مدیر کے مطابق،دونوں زخمی رپورٹروں کو ڈاکٹروں کی جانب سے دو ہفتے آرام کا مشورہ دیا گیا ہے۔
طالبان کی جانب سے دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی تھی۔
لیکن، بعض افغان شہری تشدد کے ایسے واقعات کے بعد طالبان کے دعوؤں کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
تشدد کا نشانہ بننے والے رپورٹروں میں سے ایک رپورٹر تقی دریابی نے رائیٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سات یا آٹھ افراد نے انہیں مبینہ طور پر دس منٹ تک تشدد کا نشانہ بنایا۔
بقول ان کے، ’’وہ ڈنڈوں سے پورا زور لگا کر ہمیں تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ہمیں مارنے پیٹنے کے بعد جب انہوں نے دیکھا کہ ہم بے ہوش ہو گئے ہیں تو انہوں نے ہمیں دوسرے لوگوں کے ساتھ لاک اپ میں بند کر دیا۔‘‘ خبر رساں ادارہ رائیٹرز اپنے طور پر اس بیان کی تصدیق نہیں کرسکا ہے۔
طالبان کے دوبارہ حکومت میں آنے کے بعد سے اب تک کئی صحافی اس قسم کی شکایات سامنے لا چکے ہیں اور بعض خاتون صحافیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں اپنی میڈیا کی ملازمتیں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
ذکی دریابی کے بقول ’’حکومت کے یکدم انہدام کے بعد 'اطلاعات روز' نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم اس امید پر اپنا کام جاری رکھیں گے کہ میڈیا اور صحافیوں کے لیے کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’کل کے واقعے کے بعد، ملک میں میڈیا اور صحافیوں کے مستقبل کے بارے میں جو امید باقی تھی وہ بھی ختم ہو گئی ہے۔‘‘
اس رپورٹ کے لیے مواد رائیٹرز سے لیا گیا۔