انگلینڈ کے کرکٹ بورڈ کو دورۂ پاکستان منسوخ کرنے پر اپنے ہی ملک میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ سابق انگلش کرکٹرز، تجزیہ کار اور صحافی انگلش کرکٹ بورڈ (ای سی بی) کے فیصلے کو مضحکۂ خیز قرار دے رہے ہیں۔
انگلش کرکٹ ٹیم کو آئندہ ماہ دو ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔ لیکن انگلش کرکٹ بورڈ نے یہ دورہ یہ کہہ کر منسوخ کر دیا تھا کہ 'کھلاڑیوں اور سپورٹنگ اسٹاف کی ذہنی اور جسمانی صحت' کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے۔
سابق انگلش کپتان مائیکل ایتھرٹن، کرکٹ مؤرخ و نامور محقق پیٹر اوبورن اور سابق انگلش کھلاڑیوں نے ای سی بی کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔
ایتھرٹن نے 'دی ٹائمز' میں لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں کہا ہے کہ انگلینڈ نے پاکستان کا قرض اتارنے کا موقع گنوا دیا۔
ان کے مطابق 'بائیو سکیور ببل اور کھلاڑیوں کی ذہنی صحت ' کو مدِ نظر رکھ کر دوست ٹیم کو دغا دینا ناقابلِ معافی اقدام ہے۔
سابق انگلش کپتان نے پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان رواں برس ہونے والی اُس سیریز کا بھی حوالہ دیا جس میں انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف غیر معروف کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم میدان میں اتاری تھی۔ ان کے بقول ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل بھی انگلش سلیکٹرز ایسا کر سکتے تھے، لیکن انگلینڈ نے ایسا نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ انگلینڈ کا پاکستان نہ جانے کا فیصلہ حال ہی میں بھارت کا انگلینڈ کے خلاف پانچواں ٹیسٹ نہ کھیلنے سے بھی زیادہ افسوس ناک ہے، اس فیصلے کے بعد پاکستان سے آنے والا ردِ عمل غلط نہیں۔
کرکٹ مؤرخ اور پاکستان کرکٹ پر دو کتابوں کے مصنف پیٹر اوبون نے ایک برطانوی ٹی چینل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے انگلینڈ کا دورہ اُس وقت کیا تھا جب برطانیہ میں کرونا عروج پر تھا۔ لیکن ان کے اس جذبے کے بدلے میں انہیں انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی جانب سے 'اے کک ان دی ٹیتھ یعنی ان کے منہ پر لاد' دے ماری۔
برطانوی اخبار 'دی ٹائمز' کی رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن بھی دورۂ پاکستان کی منسوخی کے فیصلے سے ناخوش ہیں، ان کے خیال میں انگلش کرکٹ ٹیم پاکستان کا دورہ کر سکتی تھی اور اس کے فیصلے سے دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔
اس سے قبل پاکستان میں موجود برطانوی ہائی کمشنر نے بھی (ای سی بی) کے فیصلے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے حال ہی میں کہا تھا کہ وہ اس دورے کے حق میں تھے اور پاکستان کے دورے سے انکار کا فیصلہ ای سی بی کا اپنا تھا۔
کرونا وبا کے دوران پاکستان نے دو مرتبہ انگلینڈ کا دورہ کیا تھا۔ ایک مرتبہ پاکستان ٹیم نے انگلینڈ کی مرکزی ٹیم کے آئسولیشن میں ہونے کی وجہ سے سیکنڈ الیون سے بھی سیریز کھیلی تھی۔
واضح رہے کہ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے کرکٹ بورڈز جب پاکستان آنے سے انکار کر رہے تھے اسی دوران انگلینڈ میں نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی ویمنز ٹیموں کی سیریز جاری تھی۔ جس میں سیکیورٹی تھریٹ کے باوجود دونوں ممالک نے میچ منسوخ یا منتقل کرنے کے بجائے سیکیورٹی بڑھانے پر اکتفا کیا تھا۔
انگلینڈ کی ویمنز کرکٹ ٹیم کی سابق کپتان شارلٹ ایڈورڈز اور سابق کھلاڑی ایبنی رین فرڈ برینٹ نے بھی دورۂ پاکستان کی منسوخی پر کہا ہے کہ انہیں خوشی ہوتی اگر انگلینڈ کی ویمنز ٹیم پاکستان کے تاریخی دورے پر جاتی لیکن انگلش بورڈ کے فیصلے سے انہیں مایوسی ہوئی۔
دونوں کھلاڑیوں نے ایک میچ کے دوران سابق انگلش کپتان مارک بچر سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انگلینڈ کو اسی طرح پاکستان کا ساتھ دینا چاہیے تھا جیسے پاکستان نے دیا۔ پاکستانی کھلاڑی اس وقت 'لو رسک' ملک سے 'ہائی رسک' انگلینڈ آئے جب کوئی آنے کو تیار نہ تھا، انگلینڈ کو ان کے اس جذبے کا ہی خیال رکھ لینا چاہیے تھا۔
سابق انگلش کپتان اور متعدد بار پاکستان آنے والے مارک بچر نے بھی اس موقع پر کہا کہ وہ جب بھی پاکستان گئے، خود کو محفوظ ہی سمجھا، جب انگلینڈ کے شاہی خاندان کو پاکستانکی سیکورٹی پر بھروسہ ہے تو نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کے فیصلے سمجھ سے باہر ہیں۔
کیا آئی پی ایل کی وجہ سے انگلینڈ نے دورۂ پاکستان منسوخ کیا؟
آئندہ ماہ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے لیے انگلینڈ کے اعلان کردہ 15 رکنی اسکواڈ میں سے آدھے سے زائد کھلاڑی اس وقت انڈین پریمئیر لیگ (آئی پی ایل) کا حصہ ہیں۔
انگلش کپتان اوئن مورگن کولکتہ نائٹ رائیڈرز کا حصہ ہیں۔ اسی طرح نائب کپتان معین علی اور سیم کرن چنئی سپر کنگز میں ہیں۔ سیم بلنگز دہلی، کرس جارڈن اور عادل راشد کنگز الیون پنجاب، لیئم لیوینگ اسٹون راجھستان رائلز اور جیسن روئے حیدرآباد سن رائزرز کا حصہ ہیں۔
یہاں انگلینڈ کے اُن کھلاڑیوں کا ذکر کرنا ضروری ہے جنہوں نے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کی تیاریوں کی وجہ سے آئی پی ایل سے اپنا نام واپس لے لیا تھا۔
اگر پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان دو ٹی ٹوئنٹی میچز 13 اور 14 اکتوبر کو راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں شیڈول کے مطابق ہوتے تو جوفرا آرچر، جوس بٹلر، کرس ووکس، ڈیوڈ ملان اور جونی بیرسٹو یقیناً اس کا حصہ ہوتے۔