رسائی کے لنکس

متنازع زرعی قوانین کی منظوری کا ایک برس مکمل، بھارتی کسانوں کا ملک گیر احتجاج


بھارت میں نریندر مودی حکومت کی جانب سے متنازع زرعی قوانین کی منظوری کو ایک سال مکمل ہونے پر 40 سے زائد کسان تنظیموں کے پیر کو ملک گیر احتجاج میں ایک بار پھر حکومت سے متنازع قوانین فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

کسانوں کے مشترکہ محاذ ”سمیوکت کسان مورچہ“ کے زیرِ اہتمام 27 ستمبر کو کی جانے والی ایک روزہ ملک گیر ہڑتال کے باعث مختلف علاقوں میں معمول کی زندگی متاثر رہی۔

یہ ہڑتال صبح چھ بجے سے شام چار بجے تک جاری رہی۔ زرعی قوانین کے خلاف یہ تیسری ملک گیر ہڑتال تھی۔

ہڑتال کا سب سے زیادہ اثر پنجاب، ہریانہ، بہار، مغربی اتر پردیش، مغربی بنگال، کیرالہ اور اڑیسہ میں نظر آیا۔ دارالحکومت دہلی کو ہڑتال سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا لیکن اس کے باوجود یہاں بھی ہڑتال کا اثر رہا اور کئی علاقوں میں ٹریفک کا نظام درہم برہم رہا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس 27 ستمبر کو بھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے پارلیمنٹ سے منظور شدہ قوانین پر دستخط کیے تھے اور کسان 10 ماہ سے اس کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔

کسانوں کا مطالبہ ہے کہ چونکہ یہ قوانین ان کے مفادات کے خلاف ہیں اس لیے حکومت انہیں واپس لے۔ جب کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے مفاد میں بنائے گئے ہیں لہٰذا یہ واپس نہیں لیے جائیں گے۔ البتہ ان میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔

خیال رہے کہ کسان تنظیموں اور حکومت کے درمیان مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات چیت کے 11 ادوار ہو چکے ہیں، لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

وزیرِ زراعت نریندر سنگھ تومر نے مذاکرات کی مدد سے مسئلے کو حل کرنے کی کسانوں سے ایک بار پھر اپیل کی ہے۔ انہوں نے اتوار کو گوالیار میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کسانوں سے اپیل کی کہ وہ ٹکراؤ کا رواستہ ترک کر کے بات چیت کا راستہ اپنائیں۔

ہڑتال کا اثر

رپورٹس کے مطابق کسانوں نے ہڑتال کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میں نیشنل ہائی ویز اور عام راستوں کے علاوہ متعدد مقامات پر ریل کی پٹریوں پر بھی قبضہ کیا جس کے نتیجے میں سڑک اور ریل خدمات بری طرح متاثر رہیں۔

ملک گیر ہڑتال سے لازمی خدمات کو مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق ریاست پنجاب میں کاروبار مکمل طور پر بند رہا جب کہ ریاست میں کانگریس کی حکومت بھی کسانوں کی حمایت کر رہی ہے۔

محکمہ ریلوے نے ریاست پنجاب میں 14 ٹرینیں منسوخ کر دیں اور متعدد کو ٹریکس پر مظاہرین کی وجہ سے جگہ جگہ روک دیا گیا۔

ہڑتال کی وجہ سے ہریانہ کی جانب سے دہلی کی طرف آنے والے راستے پر تمام دن ٹریفک جام رہا۔ ہزاروں گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی رہیں۔

دہلی پولیس نے غازی آباد بارڈر کی طرف اور تاریخی لال قلعہ کی جانب جانے والی سڑکوں کو بند کر دیا تھا جس کی وجہ سے دہلی میں بھی ٹریفک بری طرح متاثر رہی۔

کسان رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ نصف دہلی میں ہڑتال کا اثر رہا۔

ادھر تمل ناڈو کے دارالحکومت چنئی میں احتجاجی کسانوں اور پولیس میں تصادم بھی ہوا اور پولیس نے متعدد کسانوں کو حراست میں لے لیا۔

ہڑتال کی کامیابی کا دعویٰ

بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے ہڑتال کو مکمل طور پر کامیاب قرار دیتے کہا کہ اس کی وجہ سے جن لوگوں کو پریشانی ہوئی ان سے وہ معافی چاہتے ہیں۔

ان کے خیال میں اس ہڑتال کی کامیابی کو دیکھ کر مودی حکومت کسانوں کا مطالبہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ یہ کسی خاص علاقے کی تحریک نہیں ہے بلکہ پورے ملک کی ہے اور ملک بھر کے کسانوں کی حمایت اسے حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کسانوں کو کب تک سڑکوں پر بیٹھے رہنا پڑے گا۔ انہوں نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ جب تک متنازع زرعی قوانین واپس نہیں ہو جاتے وہ لوگ اپنے گھروں کو واپس نہیں جائیں گے۔

کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مزدوروں او ر تاجروں کی متعدد انجمنوں اور بینک ملازمین نے بھی ہڑتال کی حمایت کی تھی۔

اپوزیشن جماعتوں کی حمایت

اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما راہول گاندھی نے ایک ٹوئٹ میں ہڑتال کی حمایت کرتے ہوئے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

کانگریس کے علاوہ سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، عام آدمی پارٹی، تیلگو دیسم پارٹی، جنتا دل (ایس)، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی)، ڈی ایم کے، شرومنی اکالی دل، وائی ایس آر کانگریس، جھارکھنڈ مکتی مورچہ، راشٹریہ جنتا دل نے بھی ہڑتال کی حمایت کی۔

اطلاعات کے مطابق پنجاب کی ریاستی حکومت کے علاوہ تمل ناڈو، چھتیس گڑھ، کیرالہ، جھارکھنڈ اور آندھرا پردیش کی ریاستی حکومتوں نے بھی احتجاج کی حمایت کی۔

میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ٹکری بارڈر پر گزشتہ 10 ماہ سے ہڑتال پر بیٹھے ایک 65 سالہ کسان نے رسی سے لٹک کر خود کشی کر لی۔

ادھر ایک 54 سالہ شخص بگیل رام کی ہڑتال کے دوران سنگھو بارڈر پر وفات ہو گئی۔ پولیس کے مطابق اس کی موت حرکتِ قلب بند ہونے سے ہوئی ہے۔ اب تک احتجاج کے دوران تین سو سے زائد کسانوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔

'اب نریندر تومر سے نہیں نریندر مودی سے بات ہو گی'

آل انڈیا کسان سبھا کے جنرل سیکریٹری اتول کمار انجان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر سے نہیں بلکہ وزیرِ اعظم نریندر مودی سے بات ہو گی۔ اگر حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے تو وزیر اعظم خود بات کریں۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے نریندر سنگھ تومر کو برطرف کرے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 17 ریاستوں میں ہڑتال کا اثر رہا۔ تمل ناڈو، مہاراشٹرا، آسام، اڑیسہ، کرناٹک، جھارکھنڈ، بہار، مدھیہ پردیش، مغربی بنگال، شمال مشرقی ریاستوں، اترپردیش میں بھی مکمل ہڑتال رہی۔

ایک اور کسان رہنما محمد رمضان چودھری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بھارت بند کا اثر پنجاب، ہریانہ اور مغربی اتر پردیش میں بہت زیادہ رہا۔ جب کہ پہلی بار مشرقی اتر پردیش میں بھی کسان تحریک کا اثر دیکھنے کو ملا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ راجستھان، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، تیلنگانہ، آندھرا پردیش، مغربی بنگال اور کرناٹک میں بھی بھارت بند کا اثر رہا اور مارکیٹ، کاروبار اور دفاتر بند رہے۔

کب کیا ہوا؟

زرعی قوانین سے متعلق آرڈیننس 17 ستمبر 2020 کو لوک سبھا سے اور 20 ستمبر کو راجیہ سبھا سے منظور ہوا تھا۔

پنجاب میں کسانوں نے 24 ستمبر 2020 کو قوانین کے خلاف ریل روکو تحریک کا اعلان کیا۔

بھارتی صدر نے 27 ستمبر 2020 کو بل پر دستخط کیے اور اس طرح اس نے قانون کی شکل اختیار کر لی۔

کسان تنظیموں نے 26 نومبر 2020 کو پنجاب اور ہریانہ سے دہلی چلو کی کال دی۔ لیکن دہلی پولیس نے کسانوں کو دہلی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد کسان سنگھو، ٹکری اور غازی آباد سرحدوں پر بیٹھ گئے۔

حکومت اور کسان تنظیموں کے درمیان تین دسمبر کو پہلی بار بات چیت ہوئی جو ناکام رہی۔

بائیس جنوری 2021 کو گیارہویں دور کی بات چیت ہوئی۔ وہ بھی ناکام رہی۔ اس کے بعد سے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔

بھارتیہ کسان یونین نے 11 دسمبر 2020 کو ان قوانین کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔

سپریم کورٹ نے 12 جنوری 2021 کی سماعت کے دوران قوانین پر عمل درآمد عارضی طور پر روک دیا اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دی۔

کسان تنظیموں کی جانب سے 26 جنوری کو دہلی میں ٹریکٹر پریڈ نکالنے کا اعلان کیا گیا۔ جب 26 جنوری یوم جمہوریہ کو ہزاروں ٹریکٹرز کے ساتھ کسان دہلی میں داخل ہونے لگے تو پولیس سے ان کا ٹکراؤ ہوا جس میں متعدد پولیس اہلکار اور مظاہرین زخمی ہوئے اور مبینہ طور پر ٹریکٹر پلٹنے کے سبب ایک کسان ہلاک بھی ہو گیا۔

کچھ مظاہرین تاریخی لال قلعہ کی فصیل پر چڑھ گئے اور وہاں انہوں نے سکھ مذہب کا پرچم نشان صاحب لہرا دیا۔

اٹھائیس جنوری 2021 کی رات میں پولیس نے غازی پور بارڈر سے مظاہرین کو ہٹانے کی کوشش کی لیکن بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت نے پہنچ کر مخالفت کی اور پھر اس کے بعد وہ جائزوں کے مطابق کسان تحریک کے ایک بڑے رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔

کسان تنظیموں نے چھ فروری 2021 کو بارہ سے تین بجے تک پورے ملک میں پہیہ جام کیا جس کی وجہ سے لوگوں کو خاصی پریشانی اٹھانی پڑی۔

جولائی اور اگست 2021 میں چلنے والے پارلیمنٹ کے مون سون اجلاس کے دوران کسانوں نے پارلیمنٹ کے باہر مظاہرے کا اعلان کیا لیکن پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ کے نزدیک جنتر منتر پر کسان پارلیمنٹ کا انعقاد کیا جو کئی روز تک جاری رہی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG