فیس بک کی ایک سابق ڈیٹا سائنٹسٹ نے منگل کے روز کانگریس میں کمپنی کے خلاف اپنے الزامات پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کچھ ٹین ایجرز کے لئےانسٹا گرام پر بظاہر نقصان دہ مواد سے اپنی آگاہی کو چھپایا اور وہ نفرت اور غلط معلومات کے خلاف اپنی لڑائی سے بد دیانتی کی مرتکب رہی ہیں۔
فرانسس ہاوگن نے کانگریس کے سامنے فیس بک کی اندرونی ریسرچ دستاویزات کے ہزاروں صفحات پیش کئے جنہیں انہوں نے فیس بک کی سوک انٹیگرٹی یونٹ سے اپنی ملازمت سے رخصت ہونے سے قبل خفیہ طور پر نقل کیا تھا۔
ہاوگن نے فیڈرل اتھارٹی کے سامنے یہ شکایات بھی پیش کی ہیں کہ فیس بک کی اپنی ریسر چ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادارہ نفرت، غلط معلومات اور سیاسی بے چینی کو ہوا دیتا ہے، لیکن کمپنی جو کچھ جانتی تھی اسے پوشیدہ رکھتی ہے۔
اخبارات کے لئے ان کی افشا کی گئی دستاویزات کی بنیاد پر وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والی حالیہ رپورٹوں کے بعد عوامی سطح پر تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ سی بی ایس کے پروگرام،" سکسٹی منٹ" میں اتوار کو نشر کیے گئے ایک انٹر ویو میں فرانسس ہاوگن نے اپنی شناخت ظاہر کی ۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ فیس بک نے بار بار یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ تحفظ پر منافع کو ترجیح دیتا ہے۔
سوشل نیٹ ورک کے اس بڑے ادارے کو ،جس کے دنیا بھر میں دو ارب 80 کروڑ صارفین اور لگ بھگ ایک ٹریلین ڈالر کی مارکیٹ ویلیو ہے، چیلنج کرنے والی اپنی کی سابق ملازم، فرانسس ہاوگن کا سامنا ہے۔ ہاؤگن کا تعلق آئیووا سے ہے۔
کمپیوٹر انجینئرنگ میں ماسٹرز ڈگری اور ہارورڈ سے بزنس میں ماسٹرز ڈگری رکھنے والی یہ 37 سالہ خاتون ایک ڈیٹا ایکسپرٹ ہیں۔ وہ 2019 میں فیس بک میں ملازمت شروع کرنے سے قبل 15 سال تک گوگل اور دوسری کمپنیوں میں کام کر چکی ہیں۔
انہوں نے منگل کے روز سینیٹ میں صارفین کے تحفظ سے متعلق کامرس کی ذیلی کمیٹی کے سامنے گواہی دی۔
سینیٹ کا یہ پینل فیس بک کی جانب سے معلومات کے استعمال کے بارے میں انسٹا گرام پر اس کے اپنے محققین کی ریسرچ کا جائزہ لے رہا ہے، جو اس کے کچھ نو جوان صارفین کے لئے کچھ امکانی نقصان کی نشاندہی کر سکتی ہے، خاص طور پر لڑکیوں کے لئے، جب کہ ادارے نے عوامی سطح پر اس کے منفی اثرات کو گھٹا کر بیان کیا ہے۔
فیس بک کی ایک اندرونی ریسرچ کے مطابق ساڑھے 13 فی صد لڑکیوں نے کہا کہ انسٹا گرام نے خودکشی کے بارے میں ان کے خیالات کو مزید بھڑکایا اور 17 فیصد نے کہا کہ اس نے کھانے پینے کی ان کی بیماریوں میں مزید بگاڑ پیدا کیا۔ ٹیلی وژن پر اپنے انٹر ویو میں ہاوگن نے کہا کہ سب سے المناک بات یہ ہے کہ خود فیس بک کی اپنی ریسرچ کہتی ہے کہ ان لڑکیوں کو جب کھانے پینے کی ان بیماریوں کا علم ہونا شروع ہوتا ہے تو ان کی اداسی اور یاسیت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اور یہ صورت حال در حقیقت انہیں اس ایپ کے مزید استعمال پر مجبور کردیتی ہے۔ اور اس کا انجام آخر کار یہ ہوتا ہے کہ اپنے جسم سے ان کی نفرت بڑھتی چلی جاتی ہے۔
سینیٹرز ہاوگن سے مزیدمعلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ منی سوٹا کی ایک ڈیمو کریٹک رکن اور ذیلی کمیٹی کی ایک رکن ایمی کولبوشار نے پیر کے روز ایسو سی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ میں ہاوگن سے اس بارے میں مزید سوال کرنا چاہتے ہیں کہ فیس بک نے اپنے پلیٹ فارمز پر مسائل کے حل کرنے کے لئے اقدام کیوں نہیں کیا، باوجودیکہ اس کی خود اپنی ریسر چ سے بڑے پیمانے پر مسائل کی عکاسی ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ،"میں اس بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں کہ فیس بک کا سسٹم کس طرح نقصان دہ اور تنازع پیدا کرنے والے مواد کو فروغ دیتا ہے اور وہ ہمارے بچوں کو نقصان پہنچا کر درحقیقت کتنا منافع کماتا ہے۔
ہاوگن کی تنقید کا دائرہ انسٹا گرام کی صورت حال سے بھی آگے ہے۔ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ فیس بک نے باَئیڈن کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو دی جانے والی شکست کے بعد غلط معلومات اور اشتعال انگیزی روکنے کے حفاظتی اقدامات فوری طور پر بند کر دیے تھے جنہوں نے مبینہ طور پر چھ جنوری کو امریکی کیپیٹل بلڈنگ پر ہلاکت خیز حملے میں ایک کردار ادا کیا۔
نومبر کے انتخابات کے بعد فیس بک نے سوک انٹیگرٹی یونٹ کو ختم کردیا تھا جہاں ہاوگن کام کرتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ لمحہ تھا جب انہیں احساس ہوا کہ میں اس بارے میں بھروسہ نہیں کر سکتی کہ فیس بک کو خطرناک ہونے سے بچانے کے لئے جس سرمایہ کاری کی ضرورت ہے کیا وہ واقعی اس سرمایہ کاری کے لئے تیار ہیں۔
گلوبل سیفٹی کے امور سے متعلق فیس بک کی سربراہ اینٹیگنی ڈیوس کو گزشتہ جمعرات کو کامرس کے پینل کی سماعت کے دوران سینیٹرز کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہوا تھا۔ پینل نے فیس بک پر الزام عائد کیا کہ اس نے انسٹا گرام کے بارے میں ریسرچ کے منفی نتائج کو چھپایا اور انہوں نے کمپنی سے تبدیلیوں کے وعدے کا مطالبہ کیا۔
اینٹگنی نے نوجوانوں کو فیس بک پلیٹ فارم پر تحفظ دینے کی انسٹا گرام کی کوششوں کا دفاع کیا۔ انہوں نے اس انداز سے اختلاف کیا جو وال اسٹریٹ جرنل کی خبر میں ریسرچ کے نتائج بیان کرنے کے لئے استعمال کیا۔ فیس بک کا موقف ہے کہ ہاوگن کے الزامات گمراہ کن ہیں اور اس کا اصرار ہے کہ اس مفروضے کی تائید میں کوئی شواہد نہیں ہیں کہ یہ سماجی تفریق کی ایک بنیادی وجہ ہے۔
ہاوگن نے کہا ہے کہ انہیں امید ہے کہ ان کی جانب سے یہ اقدام حکومت کو فیس بک کی سر گرمیوں کے لئے ضابطوں کی تشکیل کی حوصلہ افزائی میں مدد کرے گا۔ گوگل، ایمازون اور ایپل جیسی ٹیکنالوجی کی دوسری بڑی کمپنیوں کی طرح فیس بک بھی واشنگٹن میں کئی سال تک کم سے کم ضابطوں کا حامل رہ چکا ہے۔
ایک الگ واقعے میں 'فیس بک' اور اس کے دیگر پلیٹ فارمز 'واٹس ایپ' اور 'انسٹاگرام' کے صارفین کے لئے پیر کی شب دنیا بھر میں صارفین کو پاکستانی وقت کے مطابق تقریباً نو بجے سروسز تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا جو منگل کی صبح لگ بھگ تین بجے تک بحال ہوئیں۔
فیس بک نے منگل کو اپنی ایک بلاگ پوسٹ میں سروسز کی بندش کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے انجینئرز اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کنفگریشن میں بعض تبدیلیوں کے دوران نیٹ ورک متاثر ہونے سے سروسز بند ہوئیں۔
فیس بک کے مطابق سروسز کی بندش کے دوران صارفین کا ڈیٹا متاثر ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔
فیس بک نے اپنی بلاگ پوسٹ میں صارفین سے معذرت چاہی اور کہا کہ دنیا بھر میں لوگ خصوصاً تاجر اپنے کاروبار کے سلسلے میں ان کی پروڈکٹس پر انحصار کرتے ہیں اور سروسز کی بندش سے ان کے کاروبار پر پڑنے والے اثرات کو وہ سمجھ سکتے ہیں۔