دنیا کی مقبول ترین ویڈیو شیئرنگ سائٹ یوٹیوب نے اعلان کیا ہے کہ کرونا وائرس اور دیگر ویکسین سے متعلق گمراہ کن مواد اور بے بنیاد دعووں پر مبنی ویڈیوز اور چینلز کو بلاک کر دیا جائے گا۔
یوٹیوب نے بدھ کو اپنی ایک بلاگ پوسٹ میں کہا کہ کرونا ویکسین سے متعلق نہ صرف ان غلط معلومات کو روکا جائے گا بلکہ منظور شدہ دیگر ویکسینز سے متعلق گمراہ کن مواد کو بھی بلاک کیا جائے گا۔
یوٹیوب کے مطابق وہ طِب سے متعلق اپنی پالیسی گائیڈ لائنز کا دائرہ وسیع کرنے جا رہے ہیں اور نئی گائیڈ لائنز کے تحت عالمی ادارۂ صحت یا کسی بھی ملک کے مقامی صحت حکام کی جانب سے ویکسین کو مؤثر قرار دیے جانے کو اپنی گائیڈ لائنز میں شامل کر رہے ہیں۔
یوٹیوب کا کہنا ہے کہ اُس نے گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے کے دوران کرونا وائرس سے متعلق پالیسیوں کی خلاف ورزی کی مرتکب ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد ویڈیوز اپنے پلیٹ فارم سے ہٹائی ہیں۔
یوٹیوب کے مطابق اس کی پالیسی کے تحت اس طرح کے دعووں کی بیخ کنی کی جائے گی مثلاً کرونا ویکسین خطرناک یا غیر مؤثر ہے اس کے علاوہ زکام کی ویکسین سے بانجھ پن ہو جاتا ہے، خسرہ یا اس جیسی دیگر بیماریوں سے بچاؤ کی ویکسین یادداہشت میں کمی کا سبب بن سکتی ہے۔
یوٹیوب نے منگل کو روس کی حکومتِ کے زیرِ اثر چلنے والے جرمن زمان کے چینل کو اپنے پلیٹ فارم سے ڈیلیٹ کر دیا تھا۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ مذکورہ چینل کرونا وائرس سے متعلق گمراہ کن معلومات پھیلانے سے متعلق پالیسی کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار پایا تھا۔
دوسری جانب روس نے یوٹیوب کو اپنے ملک میں بلاک کرنے کی دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ اس کے سرکاری چینل کو ڈیلیٹ کرنا معلومات کے خلاف جارحیت کے مترادف ہے۔
یوٹیوب کے ترجمان کے مطابق ویکسین سے متعلق غلط معلومات کی تشہیر کرنے والے کئی چینلز پر پابندی لگا دی گئی ہے جن میں مشہور یوٹیوبر رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر اور جوزیف مارکولا کے چینلز بھی شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق مرکولا کی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "ہم دنیا بھر میں متحد ہیں اور ہم خوف کے ماحول میں نہیں رہیں گے۔ ہم ایک ساتھ کھڑے رہیں گے اور اپنی آزادی کو بحال کرائیں گے۔"
اسی طرح کینیڈی نے کہا کہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ جمہوریت یا عوام کی صحت سے متعلق مواد پر سینسرشپ لگائی گئی ہو۔
یوٹیوب کی جانب سے ویکیسین سے متعلق بے بنیاد دعووں کو روکنے کا اعلان ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب سماجی رابطوں کی سائٹ فیس بک، ٹوئٹر سمیت یوٹیوب کو بھی اس تنقید کا سامنا تھا کہ انہوں نے گمراہ کن معلومات کی روک تھام کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
یوٹیوب کی جانب سے غلط معلومات یا دعووں کی بیخ کنی کے لیے سخت اقدامات پر اسے دنیا بھر میں شدید ردِ عمل کا سامنا بھی ہے۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔