امریکہ کی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمن پاکستان کا دو روزہ دورہ مکمل کرنے کے بعد واپس روانہ ہو گئی ہیں۔ اس دورے کے دوران افغانستان کی حالیہ صورتِ حال اہمیت کی حامل رہی۔
امریکی نائب وزیرِ خارجہ نے اس دورے کے اختتام پر کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کئی دہائیوں سے بہترین تعلقات قائم ہیں۔ افغانستان میں حالات کی بہتری کے لیے اقدامات کرتے رہیں گے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔
افغانستان کے بارے میں وینڈی شرمن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اگر انسانی المیہ جنم لیتا ہے تو یہ خطرناک ہوگا۔ دنیا کے مسائل مشترک ہیں۔ ان کا حل بھی مشترکہ طور پر ڈھونڈنا ہوگا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ کی نائب وزیرِ خارجہ کے دورے سے دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ چند ماہ سے جاری سرد مہری ختم ہوئی ہے اور روابط بحال ہونا شروع ہوئے ہیں۔
امریکی نائب وزیرِ خارجہ کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب افغانستان سے امریکہ کے انخلا اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد طالبان اور امریکی حکام کے درمیان دوحہ میں پہلی بار مذاکرات ہو رہے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات کا ہونا ایک اچھا عمل ہے۔ کیوں کہ اس سے اس تاثر میں کمی آئے گی کہ پاکستان طالبان کے ہر عمل کے پیچھے ہوتا ہے۔
امریکی نائب وزیرِ خارجہ کے دورے کے بارے میں امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اعزاز چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی نائب وزیرِ خارجہ کے دورے سے قبل دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری نظر آ رہی تھی اور رابطوں کی کمی تھی۔ اس دورہ سے یہ تاثر ختم ہوا ہے۔
اعزاز چوہدری کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک نے مل کر اکثر عالمی مسائل کے لیے کام کیا۔ جیسے حالیہ برسوں میں انسدادِ دہشت گردی کے لیے کام کیا۔ موجودہ دور میں ابھی افغانستان کے لیے کام کرنا باقی ہے۔ یہ ایک اچھی شروعات ہے۔
دوحہ میں جاری افغانستان اور امریکہ مذاکرات کے بارے میں اعزاز چوہدری نے کہا کہ افغانستان اور امریکہ کے درمیان بات چیت ہونا اچھا ہے۔ ماضی میں بھی ایسے مذاکرات ہوتے رہے ہیں۔ اس سے قبل فروری 2020 میں معاہدہ سے قبل طالبان اور امریکہ کے درمیان بات چیت بھی ان دونوں کے درمیان براہ راست ہوئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں بلکہ سیاسی ہو۔ دوحہ میں مذاکرات میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں ہے کیوں کہ ماضی میں بھی پاکستان نے کہا تھا کہ اسلام آباد سہولت کار کا کردار ادا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان وزیرِ خارجہ بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں رابطے برقرار رکھے۔ 20 برس امریکہ افغانستان میں رہا۔ موجودہ صورتِ حال میں اب وہاں انسانی المیے کا خطرہ ہے اور ایسے میں یہ بہت اچھا ہے کہ امریکہ اور افغانستان میں تعلقات بہتر ہوں۔
پاکستان امریکہ تعلقات کے بارے میں اعزاز چوہدری نے کہا کہ یہ ایسے اہم تعلقات ہیں کہ ان دونوں کا ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنا ضروری ہے۔ امریکہ میں 10 لاکھ سے زائد پاکستانی ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر رابطہ رہتا ہے البتہ حکومتوں کے درمیان تعلقات میں اکثر اتار چڑھاؤ آیا ہے۔ اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کیوں کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کے مینجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر عبد اللہ خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں اونچ نیچ آتی رہی ہے۔ جب بھی امریکہ کو پاکستان کی ضرورت کم ہوئی تو امریکہ کا رویہ سخت ہوتا رہا۔ 80 کی دہائی میں بھی ایسا ہوا کہ افغانستان سے سوویت یونین کی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کی ضرورت پڑی تو پابندیاں ختم کی گئیں اور دونوں ملک ایک دوسرے کے قریب آگئے۔
وینڈی شرمن کے دورے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ابھی بھی جو بات چیت ہوئی ہے اس میں امریکہ کو افغانستان میں انسداد دہشت گردی آپریشنز اور اپنے شہریوں کے انخلا کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ جن میں چین اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ امریکہ پاکستان کو مکمل نظر انداز نہیں کر سکتا۔
قطر میں طالبان اور امریکہ کے مذاکرات پر عبداللہ خان کا کہنا تھا کہ دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں پاکستان کا دور رہنا بہتر ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے عرصے سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے پاکستان نے افغان طالبان کے لیے سب کچھ کرنا ہے۔ اب اگر پاکستان سے ہٹ کر وہ براہِ راست بات کر رہے ہیں تو اچھا ہے۔ اس پر پاکستان کو ناراض نہیں ہونا چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے کہ پاکستان کا بوجھ کم ہو رہا ہے۔
عبداللہ خان نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے فوجی تعلقات ہمیشہ سے بہت مضبوط رہے ہیں۔
پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کی تبدیلی پر ان کا کہنا تھا کہ فوج میں ادارے کی سطح پر رابطے ہوتے ہیں اور افراد کا اگرچہ اثر پڑتا ہے لیکن یہ اثر بہت زیادہ نہیں ہوتا۔ فوج کے ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
وینڈی شرمن کی وزیرِ اعظم عمران خان سے ملاقات نہ ہونے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ عمران خان بطور وزیرِ اعظم نچلی سطح کے افراد سے ملاقات پسند نہیں کرتے اور اسی وجہ سے امریکہ کے وفد نے بھی ان سے ملاقات میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور انہوں نے وزیرِ خارجہ، قومی سلامتی کے مشیر اور آرمی چیف سے ملاقاتیں کیں۔
واضح رہے کہ امریکہ کی نائب وزیرِ خارجہ وینڈی شرمن نے حالیہ دورے میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور مشیر قومی سلامتی معید یوسف سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں جن میں خطے کی سیکیورٹی اور افغانستان کی حالیہ صورتِ حال پر تبادلہ خیال کیاگیا۔
آرمی چیف جنرل باجوہ سے ہونے والی ملاقات کے اعلامیہ کے مطابق جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں دیرپا امن اور استحکام کے لیے پر عزم ہے۔ افغانستان میں پائیدار امن کے لیے تمام کوششوں اور تمام فریقوں پر مشتمل افغان حکومت کی حمایت کرتے ہیں۔
اپنی روانگی سے قبل اسلام آباد میں ایڈیٹرز کے ایک گروپ سے ملاقات میں وینڈی شرمن نے امریکی کانگریس میں پاکستان کے خلاف پیش کردہ بل کے بارے میں سوالات کے جواب میں کہا کہ ایسے سیکڑوں بل آتے رہتے ہیں۔ ان میں ہزاروں ترامیم کی تجاویز آتی ہیں۔ ہزاروں افراد ان کے پیچھے ہوتے ہیں۔ بل سے متعلق پاکستان کے خدشات اور تحفظات سے آگاہ ہیں ۔ صورتِ حال کو دیکھ رہے ہیں۔
عمران خان سے صدر جو بائیڈن کا رابطہ نہ ہونے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ٹیلی فون پر گفتگو نہ ہونے کے حوالے سے زیادہ قیاس آرائیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان جلد گفتگو ہو گی۔