ایک حالیہ مطالعاتی رپورٹ کے مطابق، ڈپریشن دور کرنے والی ایک سستی دوا کووڈ نائنٹین کے ان بالغ مریضوں کو اسپتال میں داخل ہونے سے بچا سکتی ہے، جنہیں صحت کے حوالے سے کسی بڑے خطرے کا سامنا ہو۔
اس مطالعے میں ایسی ادویات پر تحقیق کی جا رہی تھی جو کرونا وائرس کے علاج کے لیے دوبارہ استعمال کی جا سکتی ہیں۔
محققین نے ڈپریشن اور 'اوبسیسو کمپلسو ڈس آرڈر' کے لیے استعمال ہونے والی دوا کا تجربہ کیا جو سوزش کو کم کرنے کے لیے جانی جاتی ہے اور چھوٹے پیمانے پر ہونے والے مطالعے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
تحقیق کاروں نے ان نتائج سے یو ایس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کو آگاہ کیا ہے جو علاج معالجے کے لئے اصول یا ہدایات شائع کرتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ عالمی ادارہ صحت اس حوالے سے سفارشات سامنے لائے گا۔
اونٹاریو، کینیڈا میں میک ماسٹر یونیورسٹی کے ڈاکٹر ایڈورڈ ملز نے، جو اس مطالعاتی رپورٹ کے شریک مصنف ہیں،کہا ہے کہ"اگر ڈبلیو ایچ او اس کی سفارش کرتا ہے، تو آپ دیکھیں گے کہ اس کا بڑے پیمانے پر استعمال شروع ہو جائے گا"۔
انہوں نے مزید کہا کہ بہت سے غریب ملکوں میں یہ دوا آسانی سے دستیاب ہے۔ "ہمیں امید ہے کہ اس سے بہت سی جانیں بچ جائیں گی۔"
کووڈ نائینٹین کے علاج کے لیے 'فلوواکسامائین' نامی گولی پر امریکہ میں چار ڈالر خرچ ہونگے۔ اس کے مقابلے میں، اینٹی باڈیز کے ذریعے علاج پر تقریباً دو ہزار خرچ آتا ہے، جبکہ ایک امریکی فارماسوٹیکل کمپنی مرک کی کووڈ نائنٹن کے لیے تجرباتی اینٹی وائرل گولی کے کورس پر تقریباً سات سو ڈالرز خرچ آرہا ہے۔ کچھ ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے مختلف طریقہ علاج ایک ساتھ بھی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
محققین نے حال ہی میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے برازیل کے تقریباً پندرہ سو ایسے باشندوں پر ڈپریشن روکنے والی ادویات کا تجربہ کیا جنہیں ذیابیطس سمیت صحت کے دیگر مسائل بھی درپیش تھے۔ ان میں سے تقریباً نصف تعداد نے 10 دن تک گھر پر ڈپریشن دور کرنے والی ادوایات کا استعمال کیا، باقی افراد کو نقلی گولیاں دی گئیں۔ چار ہفتوں تک انہیں زیر نگرانی رکھا گیا، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ جب ہسپتال لوگوں سے بھرے پڑے تھے، تو کون ہسپتال میں آیا یا کس نے ایمرجنسی روم میں طویل وقت گزارا۔
اس تجربے کے تحت ادویات لینے والے گروپ میں سے گیارہ فی صد کو ہسپتال میں داخل ہونے یا ایمرجنسی روم میں مزید ٹھہرنے کی ضرورت پڑی، جبکہ نقلی گولیاں لینے والے افراد کا تناسب سولہ فیصد تھا، جنہیں اس کی ضرورت پڑی۔
لینسیٹ گلوبل ہیلتھ نامی طبی جریدے میں بدھ کو شائع ہونے والے نتائج اتنے متاثر کن تھے کہ اس تحقیق کی نگرانی کرنے والےماہرین نے اسے جلد ہی روک دینے کی سفارش کر دی کیونکہ نتائج بالکل واضح تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بارے میں سوالات ابھی باقی ہیں کہ دوا کی کتنی مقدار لی جائے، کیا کم خطرے سے دوچار مریضوں کو بھی اس دوا سے فائدہ ہو سکتا ہے اور کیا اس دوا کو دوسرے طریقہ علاج کے ساتھ ملاکر استعمال کیا جانا چاہیے۔
اس تحقیقاتی پروجیکٹ میں آٹھ ادویات کو دیکھا گیا کہ آیا وہ کرونا وائرس کے خلاف کام کر سکتی ہیں۔ پروجیکٹ اب بھی ہیپاٹائٹس کی ایک دوا کی جانچ کر رہا ہے۔ لیکن دیگر تمام ادویات، بشمول میٹ فارمین، ہائیڈروکسی کلوروکوئن اور آئیورمیکٹین کو تجربے سے الگ نہیں کیا گیا۔
امریکہ کے ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ڈاکٹر پال سیکس، جو خود اس تحقیق میں شامل نہیں تھے، ان کا کہنا ہے کہ سستی جینرک دوا اور امریکی فارماسوٹیکل کمپنی مرک کی تیار کردہ کووڈ نائنٹین دوا مختلف طریقوں سے کام کرتی ہیں، لیکن ان کا استعمال ایک ساتھ کیا جا سکتا ہے۔
اس مہینے کے شروع میں، مرک نے امریکہ اور یورپ میں ادویہ سازی کے شعبے کے ریگولیٹرز سے کہا ہے کہ وہ اس کی تیار کردہ اینٹی وائرل گولی کے استعمال کی منظوری دے دے۔