انٹرنیٹ کی کمپنی یاہو انکارپوریٹڈ نے منگل کو کہا کہ چین میں کام کرنے کے بڑھتے ہوئے چیلنجز اور مسائل کے پیش نظر وہ اپنی سروسز بند کر رہا ہے۔
انٹرنیٹ سروسز کی کمپنی یاہو کا چین میں اپنا کام بند کرنے کا اعلان بڑی حد تک علامتی ہے، کیونکہ اس کمپنی کی بہت سی سروسز چین کی جانب سے ڈیجیٹل سینسرشپ کی وجہ سے پہلے ہی بلاک ہو چکی ہیں۔
تاہم، چین کی موجودہ حکومت نے ٹیک کمپنیوں پر اپنا کنٹرول بڑھانے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں جن کا نشانہ چین کی بڑی مقامی کمپنیاں بھی بن رہی ہیں، جس میں ممکنہ طور پر یاہو بھی ہدف بن گیا ہے۔
کمپنی کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ، "چین میں کاروبار کے لیے بڑھتے ہوئے چیلنجز اور قانونی ماحول کی صورت حال کے پیش نظر یکم نومبر سے چین کی سرزمین پر یاہو کی سروسز تک رسائی ختم ہو جائے گی۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یاہو اپنے صارفین کے حقوق اور انہیں بلامعاوضہ اور پابندیوں سے آزاد انٹرنیٹ کی فراہمی کے لیے پرعزم ہے۔
یاہو کی جانب سے چین میں اپنی سروسز ختم کرنے کا اقدام ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب امریکہ اور چین کی حکومتوں کے درمیان ٹیکنالوجی اور تجارت پر تنازعات جاری ہیں۔
امریکہ نے چین کی ایک ٹیلی کام کمپنی ہواوے اور دیگر ٹیک کمپنیوں پر یہ الزام لگاتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کر دی ہیں کہ ان کا چین کی حکومت یا فوج کے ادارے یا پھر دونوں سے تعلق ہے۔ جب کہ چین اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ امریکہ غیر منصفانہ طور پر مسابقت کا ماحول ختم کر رہا ہے اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں چین کی ترقی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہاہو چین میں اپنی خدمات ختم کرنے والی تازہ ترین ٹیک کمپنی ہے۔ اس سے کئی سال قبل گوگل نے چین کو چھوڑ دیا تھا اور گزشتہ ماہ مائیکروسافٹ کے مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے افراد کے ڈیجیٹل پلیٹ فارم لنکڈان نے چین کے لیے اپنی سائٹ بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ چین میں اس سلسلے میں جاب بورڈ کے نام سے ایک نئی انٹرنیٹ سروس شروع کر رہا ہے جس کا دائرہ کار نسبتاً محدود ہو گا۔
چین سے بڑی ٹیک کمپنیوں کی رخصتی ایک ایسے گھٹن زدہ ماحول کی نشاندہی کرتی ہے جہاں حکومتی ادارے سیاسی طور پر حساس یا نامناسب سمجھے جانے والے مواد اور کلیدی الفاظ کو سینسر کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
غیر ملکی ٹیک کمپنیوں کے جانے سے پیدا ہونے والے خلا کو چین کی مقامی کمپنیوں پر کر دیا ہے اور متبادل انٹرنیٹ سروسز فراہم کر دی ہیں۔ سرچ انجن یاہو اور گوگل کی جگہ بڑی حد تک چین کے سرچ انجن بائیڈو نے لے لی ہے جب کہ وی چیٹ اور وی بو سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے طور پرجگہ سنبھال چکے ہیں۔
یاہو کی جانب سے چین کو چھوڑنے کی زیادہ تر وجہ ذاتی معلومات کے تحفظ سے متعلق اس ملک میں نافذ کیا جانے والا نیا قانون ہے جو انٹرنیٹ کمپنیوں کی جانب سے معلومات اکھٹی کرنے کے دائرے کو محدود کرتا ہے اور ذخیرہ کی جانے والی معلومات کے استعمال کے معیارات طے کرتا ہے۔
چین کے نئے قوانین میں انٹرنیٹ کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ چینی حکام کی جانب سے طلب کیا جانے والا ڈیٹا ان کے حوالے کریں گے جس کی وجہ سے مغربی ملکوں کی ٹیک کمپنیوں کے لیے چین میں کام کرنا دشوار ہو گیا ہے۔
یاہو کو 2007 میں اس وقت امریکہ میں قانون سازوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اس نے چین کے دو منحرف شہریوں کا ڈیٹا بیجنگ کے حوالے کیا تھا، جس کے نتیجے میں انہیں قید کی سزائیں ہو گئی تھیں۔
یاہو نے اس کے بعد سے چین میں اپنی سروسز کو محدود کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس نے 2010 میں چین کے لیے اپنی میوزک اور انٹرنیٹ سروس ختم کر دی تھی اور 2015 میں بیجنگ میں قائم اپنا دفتر بھی بند کر دیا تھا۔
چین نے زیادہ تر بین الاقوامی سوشل میڈیا سائٹس اور سرچ انجنوں کو بلاک کر دیا ہے جن میں فیس بک اور گوگل بھی شامل ہیں۔ جب کہ چین میں کچھ صارفین ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک وی پی این کے استعمال سے اس پابندی کو توڑ کر دوسری ویب سائٹس پر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ٹیلی کمیونیکیشن کی ایک بڑی امریکی کمپنی ورائزن نے 2017 میں ہاہو کو خرید کر اسے ایک اور انٹرنیٹ کمپنی امریکہ آن لائن (اے او ایل) میں ضم کر دیا تھا۔ بعد ازاں اس نے یہ کمپنی پانچ ارب ڈالر میں اپالو گلوبل منیجمنٹ کو فروخت کر دی۔ ستمبر میں اپالو گلوبل نے اعلان کیا کہ اس معاہدے پر عمل درآمد مکمل ہو گیا ہے۔