اقوام متحدہ کی جانب سے حق نمائندگی سے متعلق فیصلہ التوا میں ڈالنے پر افغانستان کے حکمراں طالبان نے نکتہ چینی کی ہے۔
اقوام متحدہ میں طالبان کے نامزد مستقل مندوب، سہیل شاہین نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ''یہ فیصلہ قانونی تقاضوں اور انصاف پر مبنی نہیں ہے، انھوں نے افغانستان کو اس کے جائز حق سے محروم کیا ہے''۔
سہیل شاہین نے کہا ہے کہ ''ہمیں اس بات کی توقع ہے کہ بہت جلد افغانستان کی حکومت کو نمائندگی کا یہ حق دیا جائے گا، تاکہ ہم افغانستان کے عوام کے مسائل مؤثر اور بہتر طور پر حل کرا سکیں، اور دنیا کے ساتھ ایک مثبت رابطہ قائم کر سکیں''۔
اقوام متحدہ کی 'کریڈنشلز کمیٹی' نے، جو ہر رکن ملک کی نمائندگی سے متعلق فیصلہ کرتی ہے، بدھ کو بند کمرے کا اجلاس منعقد کیا، جس میں طالبان اور میانمار کی حکمراں فوجی جنتا کی حکومتوں کے ایلچی بدلنے سے متعلق فیصلہ کرنا شامل تھا۔
عالمی ادارے میں سویڈن کی سفیر، اینا کرین انسٹروم نے، جو اس نو رکنی کمیٹی کی سربراہ ہیں، بند کمرے کے اجلاس کے بعد اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ''ان دو ملکوں کی نمائندگی کے بارے میں فیصلہ مؤخر کر دیا گیا ہے''۔
اس فیصلے کا مقصد یہ ہے کہ طالبان اور میانمار کی جنتا کو فی الحال اقوام متحدہ میں نمائندگی کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
یہ فیصلہ ایسے میں سامنے آیا ہے جب دو عشروں تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد امریکہ اور اتحادی افواج کا انخلا ہوا، مغربی حمایت یافتہ افغان حکومت ختم ہوئی اور اگست کے وسط میں اسلام نواز طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔
میانمار کی فوجی جنتا نے فروری میں ہونے والے انقلاب میں اقتدار پر قبضہ جمایا تھا۔
دونوں میں سے کسی بھی حکومت کو بین الاقوامی طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔
بین الاقوامی برادری نے طالبان سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ وہ ایک جامع حکومت تشکیل دہں، خواتین اور افغان اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔
طالبان کی عبوری حکومت تمام مرد حضرات پر مشتمل ہے، جس میں زیادہ تر سخت گیر ارکان شامل ہیں، جس میں سے چند ایک پر اقوام متحدہ کی جانب سے تعزیرات بھی عائد ہیں۔ یہ سخت گیر گروپ اپنی حکومت کے خلاف تنقید کو نامناسب قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ حکومت میں تمام افغان گروپس کو نمائندگی حاصل ہے۔
جب سے طالبان نے ملک کا کنٹرول سنبھالا ہے، تب سے امریکہ اور یورپی ملکوں نے طالبان پر سخت معاشی پابندیاں عائد کر دیں، ساتھ ہی اربوں ڈالر کے افغانستان کے غیر ملکی اثاثوں تک ان کی رسائی روک دی گئی۔
اس تادیبی اقدام نے افغانستان کو معاشی بحران میں ڈال دیا ہے، جس کے باعث انسانی بحران کی صورت حال بدتر ہو چکی ہے، جو پہلے ہی کئی سالوں تک لڑائی، غربت اور طویل دورانیئے کی قحط سالی میں پھنسا ہوا ہے۔
طالبان حکومت کو تسلیم نہ کیے جانے کے نتیجے میں ملک کو انسانی بنیادوں پر امدادی اشیا روانہ کرنے کی عالمی کوششوں میں تاخیر ہو رہی ہے، جہاں اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق رواں موسم سرما کے دوران تقریباً دو کروڑ 30 لاکھ افغان آبادی کو شدید بھوک اور افلاس کا سامنا ہو گا۔