ایران کے جوہری معاہدے پر بات چیت ایک طویل عرصے تک تاخیر کی شکار رہنے کے بعد اب اس کی شروعات تو ہوئی ہے، لیکن اس میں مشکلات آڑے آ رہی ہیں، ایک جانب ایران اپنی بات منوانے کی کوشش کر رہا ہے جب کہ مذاکرات کے شراکت دار اب کھل کر مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ویانا میں مذاکرات پانچ روز تک جاری رہے، جس کے بعد امریکہ نے کہا ہے کہ لگتا ہے ایران بات چیت میں سنجیدہ نہیں ہے۔ یورپی سفارت کاروں نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے وعدوں سے ہٹنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہاں تک کہ روس نے، جس کے ایران کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں، بات چیت کے عمل میں ایران کے ارادوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔ اسرائیل کا باہر بیٹھے ایک مبصر کا کردار ہے جو مذاکرات کے نتائج پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس نے پھر سے معاملے پر بیان دینے شروع کر دیے ہیں اور ساتھ ہی وہ مشاورت کے لیے اپنے دو اعلیٰ ترین عہدے داروں کو واشنگٹن روانہ کر رہا ہے۔
وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے اتوار کے روز کہا کہ ''میں ویانا میں ایران کے ساتھ مذاکرات کرنے والے ہر ایک ملک سے یہ مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ٹھوس رویہ اپناتے ہوئے ایران پر واضح کریں کہ ایک طرف تو وہ مذاکرات کر رہا ہے تو دوسری جانب وہ یورینیم کی اعلیٰ درجے کی افزودگی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایران کو اپنی انحرافیوں کی قیمت ضرور چکانی ہو گی''۔
گزشتہ ہفتے کی بات چیت کا حوصلہ افزا نتیجہ یہی تھا کہ مذاکرات جاری رہنے چاہئیں۔ جب آئندہ دنوں مذاکرات کار اجلاس میں شریک ہوں گے تو یہ بات واضح ہو جائے گیونکہ گزشتہ ہفتے اسی بات پر زور دیا جاتا رہا کہ سنجیدگی میں کمی کے بحران پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
مذاکرات کا مقصد یہ ہے کہ ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان 2015ء کے جوہری معاہدے پر بات چیت پھر سے شروع کی جائے۔ اس سمجھوتے کا آغاز صدر براک اوباما کے دور میں ہوا تھا جب جوہری پروگرام پر پابندیوں کے عوض ایران پر عائد سخت پابندیوں میں نرمی برتنے پر رضامندی کا اظہار کیا گیا تھا۔
تاہم، تین سال گزرنے کے بعد، اس وقت کے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی واضح حوصلہ افزائی پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے معاہدے سے علیحدگی کا اعلان کیا، جس کی وجہ سے گرہیں سلجھانے کا معاملہ پیش آیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک ایران نے نیوکلیئر سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ اس دوران ایران نے یورینئم کی اعلیٰ درجے کی افزودگی کا ذخیرہ اکٹھا کرنا شروع کیا، جو معاہدے کی شرائط کی خلاف ورزی پر مبنی معاملہ تھا۔
گزشتہ ہفتے ایران نے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے اس بات کی حمایت کی کہ سفارت کاری کے گزشتہ مرحلوں کے دوران زیر بحث آنے والے تمام معاملات کا از سر نو احاطہ کیا جائے۔ مذاکرات کے دوران، جوہری توانائی کی نگرانی پر مامور اقوام متحدہ کے ادارے نے اس بات کی تصدیق کی کہ ایران نے فردا کی زیر زمین جوہری تنصیب پر یورینئم کی 20 فی صد تک اعلیٰ افزودگی کا کام پھر سے شروع کر دیا ہے۔ معاہدے کے مطابق اس تنصیب پر یورینئم کی افزودگی کی اجازت نہیں ہے۔
حالانکہ ایران یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں محض پر امن مقاصد کے لیے ہیں، ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اس کے جاری اقدام اس بات کی نفی کرتے ہیں، جس پر خدشات جنم لیتے رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ویانا میں مذاکرات کے آغاز سے قبل پانچ ماہ تک خاموشی طاری رہی، امریکہ جو اب اس سمجھوتے میں شامل نہیں ہے، مذاکرات میں شریک نہیں ہے اور وہ صرف ثالثوں کی مدد سے بات چیت میں شامل ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر اہل کار نے اختتام ہفتہ کہا ہے کہ بات چیت میں شامل مذاکرات کاروں کو اس بات کی توقع تھی کہ ایران سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ روس اور چین، جو ایران کے قریبی تجارتی شراکت دار ہیں اور روایتی طور پر ایران کے لیے نرم گوشے کا اظہار کرتے رہے ہیں، انھوں نے بھی معاہدے کے مستقبل کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اہل کار نے، جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اخباری نمائندوں کو امریکی اندازوں سے متعلق آگاہ کیا، کہا ہے کہ ''آئے روز ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ایران کا معاہدے کی پاسداری کے تقاضے پورے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے''۔
یورپی مذاکرات کاروں نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ایک مشترکہ بیان میں جرمنی، برطانیہ اور فرانس کے اعلیٰ سفارت کاروں نے کہا ہے کہ ''ایران نے اپنے نیوکلیئر پروگرام کو تیز تر کریا دیا ہے، جب کہ وہ سفارت کاری میں پیش رفت سے ہٹتا جا رہا ہے''۔
بقول ان کے، ''یہ بات غیر واضح ہے کہ حقیقت پسندانہ اعتبار سے ایران کی جانب سے پیش کردہ مسودہ جات پر کس نظام الاوقات کو پیش نظر رکھ کر پورا کیا جا سکتا ہے''۔
ویانا بات چیت میں شریک روس کے اعلیٰ سفارت کار، میخائل یلونوف نے کہا ہے کہ گزشتہ یقین دہانیوں کے برعکس، ایران نے ''قدامت پسند نظر ثانی'' پر مبنی انداز اپنایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تکنیکی طور پر ترامیم تو ہمیشہ پیش کی جا سکتی ہیں۔ تاہم، بہتر یہ ہے کہ یہ ترامیم پیش رفت کی راہ میں روڑے اٹکانے کا باعث نہ بنیں۔
اتوار کے روز ایران کی وزارت خارجہ نے نو صفحات کی ایک دستاویز جاری کی ہے، جس میں اس کے سخت مؤقف میں کچھ قدر نرمی کا عندیہ ملتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ''ضروری عملی اقدامات کرنے کے لیے دیگر فریق کو صرف سیاسی عزم اور آمادگی کے اظہار کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد اختلافات کو حل کرنے اور معاہدہ کرنے کی راہ ہموار ہو گی''۔ تاہم، دستاویز میں اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ ایران درحقیقت کیا کہنا چاہتا ہے۔
اس بیان سے اسرائیل کی تشفی نہیں ہو گی۔
اسرائیل ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن خیال کرتا ہے اور 2015ء کے معاہدے کا سخت مخالف ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ سمجھوتے میں بہتری لانے کا خواہش مند ہے جس کی مدد سے ایران کے جوہری پروگرام پر ٹھوس قدغنیں عائد کی جا سکیں، جس سے ایران طویل فاصلے کے میزائل تشکیل نہ دے سکے اور اسرائیل کی سرحد کے ساتھ ساتھ اسرائیل مخالف مخاصمانہ دھڑوں کی مدد نہ کر سکے اور مبینہ 'پراکسی' لڑائیوں میں ملوث نہ ہو۔
اسرائیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بات یقینی بنانے کے لیے کہ غیر معینہ مدت تک تاخیر سے بچنے کے لیے مذاکرات کے ساتھ ''قابل یقین" نوعیت کی فوجی دھمکی کا بھی اظہار کیا جانا چاہیے۔
بینیٹ نے کہا ہے کہ دستیاب وقت کا استعمال کرتے ہوئے، اسرائیل امریکہ کو قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ ایران کو نیوکلیئر پروگرام سے روکنے کے لیے مختلف نوعیت کا طریقہ کار استعمال کیا جائے۔ بقول ان کے، ''مختلف 'ٹول کٹ' استعمال کرنے'' کی ضرورت ہے۔ تاہم، بینیٹ نے اس بات کی مزید وضاحت نہیں کی۔