رسائی کے لنکس

پیسہ صرف پوست کی کاشت میں ہے، افغان کسان


صوبہ قندھار میں پوست کی کاشت کا ایک منظر (فائل فوٹو)
صوبہ قندھار میں پوست کی کاشت کا ایک منظر (فائل فوٹو)

’پوست کاشت نہ کریں تو کھائیں کہاں سے‘، یہ کہنا ہے کہ 10 بچوں کے باپ نور کا، جن کو افغانستان میں پوست کی کاشت کا کچھ متبادل نظر نہیں آتا۔

دیگر کسانوں کا بھی کہنا ہے کہ وہ پوست کی کاشت جاری رکھیں گے جب کہ طالبان نے افغانستان پر قبضے کے بعد پوست کی کاشت ختم کرنے کی کوئی یقینی پالیسی وضع نہیں کی ہے۔

وائس آف امریکہ کے یوسف نورزئی کی رپورٹ کے مطابق 52 سالہ نور کے دس بچے ہیں۔ افغانستان کے صوبے فرح کے ایک دور دراز گاؤں کا یہ کسان پوست کی کاشت کر کے گزر اوقات کرتا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ اگر وہ افیون یا پوست کاشت نہ کرے تو کیا کرے۔ اب بھی فصل آنے تک اسے نہیں معلوم کہ وہ بچوں کا پیٹ کیسے پالے گا جبکہ اس کے پاس ایک ماہ کا بھی راشن نہیں بچا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے اندازے

یہ صورتِ حال عمومی طور پر افغانستان کے بیشتر حصوں کی ہے۔ اکتوبر میں اقوامِ متحدہ کی خوراک و زراعت کے ادارے (ایف اے او) نے ایک رپورٹ میں خبردار کیا تھا کہ افغانستان میں خوراک کی شدید قلت کے شکار لوگوں کی تعداد مارچ 2022 میں آبادی کے 55 فیصد یعنی 2کروڑ 28 لاکھ تک پہنچ جائے گی، جبکہ ستمبر۔اکتوبر 2021 میں یہ تعداد ایک کروڑ 88لاکھ تھی۔

عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ مسلسل خشک سالی، لوگوں کی نقل مکانی، عام سہولتوں کے فقدان اور شدید اقتصادی بحران نے افغانستان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

کسانوں کو گندم پیدا کرنی چاہئیے، خوراک کی کمی کا یہی حل ہے مگر نور جیسے کسان جو برسوں سے پوست ہی کاشت کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کے صوبے کی بڑی فصل گندم ہے مگر اس کا نہ تو پیدا کرنا آسان ہے اور نہ ہی یہ زیادہ منافع بخش ہے۔ جبکہ وہ کہتے ہیں اس کے مقابلے میں پوست کی کاشت میں صرف چھ ماہ لگتے ہیں اور یہ پانی بھی کم لیتی ہے اور اس پر گندم کے مقابلے میں لاگت بھی کم آتی ہے۔

اور پھر جب اگست میں طالبان نے افغانستان پر قبضہ کر لیا تو افیون کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔

کابل کے نواح میں سال دو ہزار نو میں پکڑی جانے والی منشیات کو نذرآتش کیا جا رہا ہے (اے پی: فائل)
کابل کے نواح میں سال دو ہزار نو میں پکڑی جانے والی منشیات کو نذرآتش کیا جا رہا ہے (اے پی: فائل)

اقوامِ متحدہ کےمنشیات اور جرائم سے متعلق ادارے، یو این او ڈی سی نے گذشتہ ماہ ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق افغانستان میں سیاسی صورتِ حال تبدیل ہوتے ہی قیمتیں دگنی ہو گئی ہیں۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ، افیون کی کمی سے زیادہ مستقبل میں مارکیٹ کی صورتِ حال سے متعلق بے یقینی ہو۔

افغانستان دنیا میں پوست اور افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یو این او ڈی سی کی گزشتہ ماہ کی رپورٹ کے مطابق، 2020 میں دنیا میں پوست کی 85 فیصد پیداوار افغانستان میں ہوئی اور 2021 میں اس سے 1.8 سے2.7 ارب ڈالر تک کی آمدنی ہوئی جو ملک کی کل پیداوار کا 6 سے 11 فیصد ہے۔

طالبان کا مؤقف

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اگست میں اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ ان کا گروپ افیون اور پوست کی کاشت اور اس کی سمگلنگ کی روک تھام کرے گا۔

ان کے الفاظ تھے،"ہم اپنے ہمسایوں اور دنیا کو یقین دلاتے ہیں کہ افغانستان افیون اور پوست کی پیداوار کا مرکز نہیں رہے گا۔" انہوں نے کسانوں کو آمدنی کے دیگر ذرائع مہیا کرنے کے لئے عالمی سطح پر مدد بھی طلب کی تھی۔

اقوامِ متحدہ کا ادارہ ایف اے او افغانستان کو موسمِ سرما میں بوائی کے لئے گندم کے بیج کے پیکیجز مہیا کر رہا ہے تاکہ وہاں گندم کی پیداوار میں اضافہ ہو۔

64 سالہ سید علی صوبے ننگر ہار کے ضلعے چھپرہار کے کسان ہیں ۔ وہ کہتے ہیں،" پوست کے کھیت، گندم یا مکئی کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ پیداوار دیتے ہیں۔ چنانچہ جن علاقوں میں لوگوں نے گذشتہ بیس برس میں پوست کاشت نہیں کی تھی وہاں بھی اس سال اس کی کاشت ہونے لگی ہے۔ ہمارا گزارہ اسی پر ہے۔ کسی اور جنس کی مارکیٹ میں کوئی قیمت نہیں ہے۔"

چنانچہ گذشتہ ماہ ایک انٹرویو میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ افغانستان میں لوگوں کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور ایسے میں ان سے آمدنی کا واحد ذریعہ چھین لینا مناسب نہیں ہے۔

جون 2021 میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افیون اور پوست کی کاشت اور تجارت، طالبان کے لئے آمدنی کاسب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ 2020 میں طالبان نے اس سے لگ بھگ 46 کروڑ ڈالر کمائے ہیں۔

نور کہتے ہیں طالبان نہ صرف پوست کی کاشت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں بلکہ کسانوں سے زبردستی ٹیکس بھی وصول کرتے ہیں۔

بین الاقوامی ردِ عمل

بین الا قوامی طور پر ہمیشہ توجہ اس پر رہی کہ افغانستان میں پوست کی کاشت روک دی جانی چاہئیے۔ ولیم برڈ ،یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں افغانستان کے امور کے سینئیر تجزیہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زیادہ توجہ کسانوں کے پوست کے کھیت ختم کرنے پر رہی ہے جو اس سب میں جرم کا سب سے کمزور پہلو ہے۔

اگست میں افغانستان کی تعمیرِ نو کے عمل کے نگران ادارے سیگار (SIGAR) نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں منشیات کی روک تھام پر نو ارب ڈالر خرچ کئے ہیں مگر پوست اور افیون کی کاشت ملک میں بڑھ گئی ہے۔

ولیم برڈ کہتے ہیں،پیسہ افیون کی تجارت سے آتا ہے۔ اس کے لئے کوئی علاقائی پالیسی بنانا ہو گی۔ خطے میں دیگر ملکوں کو بھی اس میں کردار ادا کرنا ہوگا جو منشیات کے ان سمگلروں پر ہاتھ نہیں ڈالتے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جسے بتدریج اور مستقل طریقے پر جاری رہنا چاہئیے۔

XS
SM
MD
LG