ترک صدر رجب طیب ایردوان کی حکومت ان دنوں مہنگائی اور ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسی کی گراوٹ کی وجہ سے شدید تنقید کی زد میں ہے۔ تاہم صدر ایردوان نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ وہ ملک میں مہنگائی کی شرح چار فی صد تک لانے میں کامیاب ہو جائیں گے کیوں کہ ان کے بقول وہ ماضی میں ایسا کر چکے ہیں۔
ایردوان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حالیہ دنوں میں ترکی میں مہنگائی کی شرح 21 فی صد تک پہنچ چکی ہے جب کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک کرنسی لیرا کی قدر بھی مسلسل کم ہو رہی ہے۔
اتوار کو نشر ہونے والی تقریر میں اپنی معاشی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے ترک صدر کا کہنا تھا کہ "شرح سود میں کمی سے لیرا کی قدر میں کمی دیکھی جا رہی ہے لیکن یہ معاشی خود مختاری کی جنگ میں کامیاب پالیسی ہے۔"
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کی معاشی حکمتِ عملی سے سرمایہ کاری اور برآمدات میں اضافہ جب کہ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔
البتہ بہت سے معاشی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر ایردوان اسی معاشی پالیسی پر عمل پیرا رہے تو ملک میں اگلے برس افراطِ زر یعنی مہنگائی کی شرح 30 فی صد سے بھی بڑھ سکتی ہے۔
رواں برس لیرا کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں 55 فی صد کمی دیکھی گئی ہے جب کہ گزشتہ 30 روز کے دوران لیرا کی قدر میں 37 فی صد گراوٹ ہو چکی ہے۔
ایردوان نے معیشت سے متعلق اپنے غیر روایتی بیانیے کا دفاع کرتے ہوئے مزید کہا کہ شرح سود میں اضافے سے مہنگائی بڑھتی ہے، لہذٰا یہ شرح کم رکھنے کے ثمرات جلد سامنے آئیں گے اور مہنگائی کم ہو گی۔
خیال رہے کہ 2011 میں ایردوان وزیرِ اعظم تھے تو اس وقت افراطِ زر کی شرح چار فی صد تھی۔ البتہ 2017 کے بعد اس میں مسلسل اضافہ ہوا اور محض نومبر میں اس میں تین اعشاریہ پانچ فی صد اضافہ ہوا۔
ترکی میں اپوزیشن جماعتیں ملک میں فوری انتخابات کا مطالبہ بھی کر رہی ہیں۔ البتہ 20 برس سے اقتدار پر براجمان ایردوان نے ان مطالبات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ عام انتخابات اپنے وقت یعنی 2023 میں ہی ہوں گے۔
گزشتہ ہفتے کے اختتام پر استنبول سمیت ترکی کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر مہنگائی کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے تھے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ترک عوام کی اکثریت نے جمعرات کو ایردوان کی جانب سے کم سے کم اُجرت میں 50 فی صد اضافے کو بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تناظر میں ناکافی قرار دیا ہے۔
ترک صدر کا اپنے خطاب کے دوران مزید کہنا تھا کہ ترک معیشت پر 'غیر معقول' حملوں کی وجہ سے ملک کو اس صورتِ حال کا سامنا ہے۔ البتہ اُنہوں نے سرمایے کی بیرونِ ملک منتقلی روکنے کے مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ شرح سود میں کمی سے ہمیں اس صورتِ حال کا سامنا نہیں ہے۔
ایردوان کا کہنا تھا کہ "کرنسی کی قدر میں کمی کرنے کا ہتھیار ترکی پر آزمایا گیا، لیکن جب کرنسی اور قیمتیں مستحکم ہوں گی تو ہم ایک بار پھر جدید ترکی کے دروازے کھلتے دیکھیں گے۔"
ترک صدر کے اصرار پر مرکزی بینک ستمبر سے اب تک شرح سود میں 500 بیسز پوائنٹ کی کمی کر چکا ہے۔ ایردوان کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام سے برآمدات بڑھنے کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
ہفتے کو ترکی کے سب سے بڑے بزنس گروپ 'تس ایڈ' ںے مطالبہ کیا کہ حکومت شرح سود کم رکھنے کی معاشی پالیسی ترک کر کے روایتی اکنامک سائنس کی طرف لوٹ آئے۔
اتوار کو اپنے خطاب میں ترک صدر نے 'تس ایڈ' کے اس مطالبے کو حکومت پر حملے کے مترادف قرار دیا۔