تجزیہ کار پیش گوئی کر رہے ہیں کہ چین آنے والے عشروں میں اپنی معیشت کو امریکی معیشت سے آگے لے جانے کے لئے ماضی کی طرح برآمدات پر انحصار کے بجائے ملکی سرمایہ کاری، اعلیٰ ٹیکنالوجی کی تیاری اور اندرونِ ملک کھپت پر انحصار میں اضافہ کرے گا۔
برطانیہ میں 'سنٹر فار اکنامکس اینڈ بزنس ریسرچ' سی ای بی آر، کی پیش گوئی ہے کہ 2025 تک چین کی سالانہ معاشی پیداوار کی شرح5.7% رہنے کا امکان ہے اور پھر 2030 میں 4.7% سالانہ۔ اس پیش گوئی میں مزید کہا گیا ہے کہ چین کی معیشت جو اس وقت دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے، 2030 میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت یعنی امریکہ سے آگے نکل جائے گی۔ یہی پیش گوئی ایک اور مالیاتی کمپنی 'ایولر ہرمز' نے بھی کی ہے۔
وائس آف امریکہ کے رالف جیننگز نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق، گزشتہ عشرے میں چینی لیڈروں نے فیکٹریوں میں تیار کردہ روایتی برآمدی اشیاء کے بجائے اندرونِ ملک بننے والی اشیاء پر انحصار کرنے پر زیادہ زور دیا۔ امریکہ کے ساتھ تجارتی تنازعے اور سال 2020 میں کووڈ19 کی وجہ سے کام بند ہونے کے باعث فیکٹریوں میں اشیاء کی تیاری پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
اسی کے پیشِ نظر کثیر الملکی بیرونی کمپنیاں چین سے باہر ویتنام جیسے ملکوں میں اپنے مال کی تیاری کو ترجیح دے رہی ہیں تاکہ اجرت اور ماحولیاتی تبدیلی کے ضابطوں پر عمل کرنے سے بڑھنے والی لاگت سے بچا جاسکے۔ پھر 2020 میں کووڈ19 کے لاک ڈاؤن میں فیکٹریاں بند ہونے کی صورتِ حال دوبارہ پیدا ہونے کا امکان بھی کم نظر آتا ہے۔
سرمایہ کاری پر کنٹرول
چین کی معیشت گزشتہ بیس برس سے تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ تاہم، اس کے بہت سے شعبوں میں بہت حد تک سرکاری عمل دخل رہا ہے جیسا کہ 2021 میں انٹرنیٹ کے شعبے میں اور اب اقتصادی ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ بعض کلیدی شعبوں پر سرکاری کنٹرول میں مزید اضافہ ہوگا۔
ڈینی روئے، ہانولولومیں 'ایسٹ ویسٹ سنٹر' نامی تھنک ٹینک میں سینئر فیلو ہیں۔ وہ کہتے ہیں،"بیجنگ کے پاس فنڈز بھی ہیں اور اندرونِ ملک بلا رکاوٹ سیاسی طاقت بھی جس کی مدد سے چین کے وسیع سرکاری خزانے کو ایسی سرمایہ کاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے جو چینی قیادت کے قومی اور عالمی منصوبوں میں مدد دے سکے''۔
ٹیکنالوجی کی پیداوار
اقتصادی ماہرین کہتے ہیں کہ امکان ہے کہ چینی لیڈر پیداوار میں اضافے کے لئے ٹیکنالوجی کو ترجیح دیں گے خاص طور پر ہارڈوئیرز کو، کیونکہ ان میں مسلسل تجدید کی ضرورت نہیں ہوتی۔
زینن کیپرون شنگھائی میں کیپرونیشیا نامی کمپنی کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں۔ ان کی کمپنی صنعتی مالی معاملات پر تحقیق کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انٹرنیٹ کے شعبے میں حکومتی مداخلت، نیم مواصلاتی اور زیریں ڈھانچے سے متعلق سافٹ وئیر کی توسیع پر اثر انداز نہیں ہوگی۔
وہ کہتے ہیں،"اگر چین ٹیکنالوجی میں خودمختار ہو جاتا ہے اور پھر ٹیکنالوجی کی مصنوعات اور سروسز کی فروخت کے قابل ہو جاتا ہے تو یہ اس کی معیشت کے لئے بہت فائدہ مند ہو گا، کیونکہ امریکی معاشی پیداوار میں یہی کلیدی عنصر ہے۔"
تاہم، کیپرون کہتے ہیں،"امریکی معیشت 2030 تک استحکام کے ساتھ مسلسل ترقی کرتی رہے گی۔"
صارفین اور قوتِ خرید
میکنزی اینڈ کمپنی نے چینی صارفین سے متعلق 2021 کی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سال 2021 سے پہلے جب چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی تنازعے نے دنیا میں چینی اشیاء کی تجارت کم کر دی تھی تو چینی پیداوار کا بڑا انحصار اندرونِ ملک خرچ کی گئی رقوم پر تھا۔ اور اسی دوران نہ صرف ترسیلات مستحکم ہوئیں بلکہ مقامی سطح پر جدت میں بھی اضافہ ہوا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ چینی آبادی میں امریکہ کی نسبت 3.5 گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کے ساتھ صارفین کے خرچ کرنے کا یہ رجحان بھی جاری رہے گا۔ مگر عموماً امریکی صارف زیادہ دولتمند واقع ہوئے ہیں۔
آئی ایچ ایس مارکیٹ کے ایشیا۔بحر الکاہل کے لئے چیف اکانومسٹ راجیو بسواس کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ برسوں میں چین کی اندرونِ ملک اشیاء کی کھپت اس کی معاشی ترقی کا اہم حصہ رہی ہے۔ اور ملکی صارفین کی خرید کی استطاعت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
چینی معیشت امریکہ سے بڑھ گئی تو کیا ہوگا؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کا درجہ حاصل ہونا بذاتِ خود دوسروں پر کوئی سبقت دلانے کا باعث نہیں ہوتا لیکن جو ملک چینی معیشت پر انحصار کرتے ہیں وہ اس کو ضرور دیکھیں گے۔
سی ای بی آر کے میک ولیمز نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا، "اس پر کوئی سونے کا تمغہ یا کوئی اعزاز نہیں ملتا۔ مگر جب آپ کی جیب میں پیسے زیادہ ہوں تو دوسروں پر اثر ڈالنے کی آپ کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور یہ صلاحیت چین بھی حاصل کر سکتا ہے۔"
وہ کہتے ہیں چین نو برس پہلے شروع کئے گئے اپنے 'بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو' نامی منصوبے کو مزید آگے بڑھا سکتا ہے۔ یہ منصوبہ زیریں ڈھانچے اور سرمایہ کاری کے ذریعے ایشیا، یورپ اور افریقہ میں زمینی اور سمندری تجارتی راستوں سے متعلق ہے۔
ایسٹ ویسٹ سنٹر کے روئے کہتے ہیں کہ بیجنگ میں عہدیدار اپنے ملک کی معیشت کو دیگر ممالک کے ساتھ تنازعوں کے تقابل میں دیکھ رہے ہیں۔ چین کا جنوب مشرقی ایشیا کے چار ممالک کے ساتھ بحری علاقے پر اختیار کا تنازعہ چل رہا ہے، جاپان کے ساتھ متعدد جزائر کا قضیہ بھی موجود ہے اور 2017 سے بھارت کے ساتھ بھی علاقائی تنازعہ چل رہا ہے۔
چنانچہ ہانولولو میں 'ایسٹ ویسٹ سنٹر' نامی تھنک ٹینک میں سینئر فیلو، ڈینی روئے کہتے ہیں چین اگر اس توقع پر پورا اترنا چاہتا ہے کہ اس کی معیشت امریکہ سے سبقت لے جائے تو عوامی جمہوریہ چین کے لئے لازمی ہو گا کہ وہ اپنے علاقائی تنازعے اپنے حق میں حل کرے اور امریکہ کی علاقائی اور عالمی سطح پر قائدانہ حیثیت کو تبدیل کرنے کے لئے واضح کرے کہ چین بین الاقوامی تعلقات کے نئے ضابطے مرتب کر رہا ہے۔"
فی الحال مارکیٹ کی تحقیق کرنے والی فرم، آئی ایچ ایس مارکیٹ کے اندازے کے مطابق، سال 2021 میں چین کی معیشت کا حجم 159.2 کھرب جبکہ امریکہ کی معیشت کا حجم 230 کھرب ڈالر ہے۔