پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتحار کا کہنا ہے کہ افغانستان سے ملحقہ سرحد پر باڑ ہر صورت مکمل کی جائے گی، کیوں کہ یہ باڑ لوگوں کو تقسیم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اُن کی حفاظت کے لیے لگائی جا رہی ہے۔
بدھ کو راولپنڈی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے میجر جنرل بابر افتحار کا کہنا تھا کہ باڑ کی تنصیب میں شہدا کا خون شامل ہے، لہٰذا یہ امن کی باڑ ہے جو ہر صورت مکمل کی جائے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ قیاس آرائیوں، غلط فہمیوں پر کان دھرنے کے بجائے اِکا دکا واقعات کو بردباری سے حل کرنا چاہیے تاکہ امن قائم رہے۔
خیال رہے کہ چند روز قبل افغان طالبان اہل کاروں کے ہاتھوں ڈیورنڈ لائن پر پاکستان کی جانب سے لگائی جانے والی باڑ اُکھاڑنے کی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آئی تھیں۔
البتہ میجر جنرل بابر افتحار کا کہنا تھا کہ ان واقعات کو بار بار اُچھال کر غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالاں کہ پاکستان اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کے درمیان تعلقات بہت اچھے ہیں۔
ترجمان پاکستانی فوج نے واضح کیا کہ پاکستان، پاک، افغان سرحد کو ڈیورنڈ لائن نہیں مانتا، یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ بین الاقوامی سرحد ہے اور اپنی سرحد کے اندر پاکستان اپنی مرضی سے اقدامات کر سکتا ہے۔
میجر جنرل بابر افتحار کا کہنا تھا کہ پاک، افغان سرحد پر باڑ لگانے کا 94 فی صد کام مکمل ہو چکا ہے جب کہ پاک، ایران سرحد کے 71 فی صد حصے پر باڑ لگ چکی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاک، افغان سرحد پر پاکستان نے 1250 جب کہ افغانستان کی طرف صرف 377 چیک پوسٹس ہیں۔ لہٰذا دوسری طرف سے غیر قانونی نقل و حرکت روکنا چیلنج رہتا ہے۔
بھارت کی جانب سے پاکستان سے ملحقہ سرحد پر ایس-400 میزائل ڈیفنس سسٹم نصب کرنے کے سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ وہ اس پیش رفت سے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے، البتہ پاکستان اپنے حریفوں کی فوجی صلاحیت کو مدِنظر رکھ کر اپنی فوجی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔
باڑ اُکھاڑنے کے معاملے پر افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ خارجہ نے بھی ردِعمل دیا تھا۔
ترجمان عبدالقہار بلخی نے ٹوئٹ کی تھی کہ ڈیورنڈ لائن پر حالیہ واقعات اس بات کے متقاضی ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے حکام اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔
'نواز شریف کے ساتھ ڈیل کی خبریں بے بنیاد ہیں'
نواز شریف سے ڈیل کی باتوں سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ نواز شریف کے حوالے سے محض قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ اگر کوئی ڈیل کی بات کر رہا ہے تو اس سے پوچھیں تفصیلات بھی بتائے۔ ان کے پاس ثبوت کیا ہیں، کون ڈیل کر رہا ہے، کیا محرکات ہیں، درحقیقت ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔
بابر افتحار کا کہنا تھا کہ فوج اور حکومت کے تعلقات بہترین ہیں۔ فوج حکومت کے ماتحت ادارہ ہے اور اسی کے احکامات پر عمل کرتا ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ عرصے سے اداروں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے جس کا مقصد حکومت اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنا ہے، تاہم ایسے عناصر سے آگاہ ہیں۔
'گزارش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو بحث سے باہر رکھیں'
اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت سے متعلق بے بنیاد قیاس آرائی بھی نہ کی جائے۔ اس طرح کی قیاس آرائیوں میں نہ شامل ہوا جائے اور نہ ہی انہیں ہوا دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ شام کو ٹی وی پروگرام میں باتیں ہوتی ہیں، اسٹیبلشمنٹ نے یہ کر دیا وہ کر دیا۔ گزارش ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اس بحث سے باہر رکھیں۔ پاکستان کے اندر بہت زیادہ اہم ایشوز ہیں جن میں تعلیم، صحت اور دیگر شعبے ہیں۔ ہم آپ سے بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہمیں ان باتوں سے الگ رکھیں۔ افواجِ پاکستان کی طاقت عوام ہے، اس رشتے ميں دراڑ ڈالنے کی تمام کوششيں ناکام ہوں گی۔
'ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن جاری ہے'
میجر جنرل بابر افتخار نے بتایا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے سیز فائر نو دسمبر کو ختم ہو گیا تھا۔ ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن جاری ہے، ابھی مذاکرات نہیں ہو رہے۔
اُنہوں نے انکشاف کیا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات افغانستان میں طالبان حکومت کی درخواست پر شروع کیے گئے تھے۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان نے مزید بتایا کہ پاکستان میں دولتِ اسلامیہ (داعش) کا کوئی وجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد ٹی ٹی پی کو بتایا گیا کہ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال نہیں ہو گی جس کے بعد افغان حکومت کے کہنے پر مذاکرات کیے گئے کہ ان مسائل کو حل کیا جائے۔
میجر جنرل بابر افتحار نے دعویٰ کیا کہ ٹی ٹی پی کے اندر بھی بعض اختلافات ہیں اور ان کی بعض باتیں ایسی ہیں جنہیں کسی صورت تسلیم نہیں کیا جا سکتا، لہذا اس وقت ان کے خلاف آپریشنز کا سلسلہ جاری ہے۔
میجر جنرل بابر افتخار نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کچھ عرصے سے پاکستان کے مختلف اداروں اور شخصیات کے خلاف منظم مہم چلائی جا رہی ہے جس کا مقصد حکومت، عوام، اداروں اور افواج کے درمیان خلیج پیدا کرنا اور اداروں پر عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایسی تمام سرگرمیوں کے حوالے سے آگاہ ہیں بلکہ ان کے لنکس کو بھی جانتے ہیں جو ملک میں اور بیرون ملک بیٹھے یہ کام کر رہے ہیں۔