کراچی میں ایک نوجوان کے قتل میں عمر قید کی سزا پانے والے ملزم شاہ رخ جتوئی کو خلافِ ضابطہ کئی ماہ سے جیل سے باہر نجی اسپتال میں رکھنے کا انکشاف ہوا ہے۔ تاہم یہ خبر مقامی میڈیا پر نشر ہونے کے فوری بعد ہی ملزم کو دوبارہ سینٹرل جیل کراچی منتقل کر دیا گیا۔
شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو محکمۂ داخلہ کے ایک حکم کے تحت گزشتہ چھ ماہ سے کراچی کے علاقے گزری میں واقع نجی اسپتال میں رکھا گیا تھا۔
اسپتال انتظامیہ نے وائس آف امریکہ کو اس بات کی تصدیق کی ہے کہ شاہ رخ جتوئی چھ ماہ سے زائد عرصے سے یہاں زیرِ علاج تھا۔ اس سے قبل وہ محکمۂ داخلہ کے اسی حکم نامے کے تحت بے ویو اسپتال کلفٹن میں بھی زیرِ علاج رہا ہے۔
اس سے پہلے شاہ رخ کا کراچی انسٹی ٹیوٹ اف ہارٹ ڈیزیز میں بھی کچھ عرصہ زیرِ علاج رہنے کا انکشاف ہوا ہے۔ یوں ایک سال سے زائد عرصے سے شاہ رخ کمر درد اور معدے کی تکلیف کی بنا پر جیل سے باہر نجی اسپتال میں زیرِ علاج ہے۔
مجرم کے جیل سے باہر نجی اسپتال میں زیرِ علاج رکھنے کو کئی قانونی ماہرین خلافِ قانون قرار دے رہے ہیں۔
کریمنل لا کے ماہر وکیل محمد فاروق ایڈووکیٹ کے مطابق ملزم کو کسی تکلیف کی صورت میں جیل کے اسپتال ہی میں علاج فراہم کیا جاتا ہے۔ ملزم کی طبعیت بگڑنے پر سرکاری اسپتال میں بھی اسے منتقل کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اُن کے بقول اس کے لیے آئی جی جیل خانہ جات، محکمہ داخلہ کو خط لکھیں گے جس کے بعد تشکیل کردہ میڈیکل بورڈ اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ کیا ملزم کی بیماری اس نوعیت کی ہے کہ اسے اسپتال منتقل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
البتہ ان کا کہنا تھا کہ ملزم کے بغیر کسی میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے سرکاری ہی نہیں بلکہ نجی اسپتال منتقلی پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جب کہ ملزم کو اس وقت عمر قید کی سزا کے تحت جیل میں ہونا چاہیے۔
اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے آئی جی جیل خانہ جات سندھ قاضی نذیر احمد سے رابطے کی کئی بار کوشش کی، انہیں سوالات بھی بھیجے گئے لیکن اس رپورٹ کے شائع ہونے تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
اس معاملے پر اب تک سندھ حکومت کے ترجمان سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی جانب سے بھی کوئی موٌقف سامنے نہیں آیا ہے۔
ملزم شاہ رخ جتوئی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ انتہائی بااثر خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور اسے جیل میں غیر معمولی سہولیات فراہم کرنے پر پہلے بھی کئی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کراچی جیل کے دورے کے موقع پر ملزم کو سزائے موت کا قیدی ہونے کے باوجود شاہانہ کمرے میں ٹھہرانے پر جیل حکام کی سرزنش کی تھی اور ملزم کو جیل قوانین کے مطابق قید رکھنے کا حکم دیا تھا۔
شاہ زیب قتل کیس کیا تھا؟
شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے 2012 میں کراچی کے علاقے کلفٹن میں نوجوان شاہ زیب خان کو ذاتی رنجش کی بنا پر گھر کے باہر فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔
واقعے کے بعد مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی دبئی فرار ہو گیا تھا۔ سول سوسائٹی کے شدید احتجاج پر اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی جانب سے ازخود نوٹس لیا گیا اور پھر ملزم کو بیرون ملک سے پاکستان لا کر گرفتار کیا گیا۔
مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں دائر ہوا جس میں سات جون 2013 کو شارخ جتوئی اور اس کے ساتھی سراج تالپور کو سزائے موت اوران کے سیکیورٹی گارڈ مرتضیٰ لاشاری اور سجاد تالپور کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ عدالت نے مرکزی ملزم کے وکلاٗ کی جانب سے اسے 18 سال سے کم عمر قرار دینے کی استدعا بھی مسترد کر دی تھی۔
اس دوران ملزمان اور مقتول کے خاندان کے درمیان صلح اور تصفیہ بھی ہو گیا تھا۔ جس کے تحت مقتول کے خاندان نے بھاری معاوضے کے عوض ملزمان کو معاف کر دیا تھا۔
البتہ عدالت نے صلح نامہ قبول کرتے ہوئے بھی یہ قرار دیا تھا کہ قتل کی دفعات کے برعکس انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمات میں فریقین کے درمیان صلح نامہ قابل قبول نہیں ہوتا۔
سندھ ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے بعد مئی 2019 میں ملزمان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔ جب کہ دو دیگر ملزمان سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی گئی تھی۔
ملزمان کے وکیل حق نواز تالپور نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم کو اب ملزمان کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے جس پر سماعت ہونا ابھی باقی ہے۔