صدر جو بائیڈن اور ڈیموکریٹک پارٹی کو کانگریس میں ووٹنگ سے متعلق دو بلز منظور کرانے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ان بلز کو امریکہ میں رواں برس نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات سے قبل ووٹنگ قوانین میں اصلاحات لانے کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کی اہم کوشش کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔
گزشتہ برس ڈیموکریٹک پارٹی نے ووٹنگ کے دن قومی سطح پر عام تعطیل، ووٹرز کی شناخت، رجسٹریشن، قبل از وقت ووٹ دینے کی مدت میں اضافے اور دیگر رعایتیں فراہم کرنے کے لیے دو ترامیمی بل 'فریڈم ٹو ووٹ ایکٹ' اور 'جان لوئیس ووٹنگ رائٹس ایڈوانسمنٹ ایکٹ' متعارف کرائے تھے۔
صدر بائیڈن نے اس قانون سازی کی بھرپور حمایت کی تھی اور ڈیموکریٹک پارٹی نے ایوانِ نمائندگان سے ان کی منظوری بھی حاصل کرلی تھی۔ لیکن ایوانِ بالا سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی نے ان مجوزہ ترامیم کو قانون نہیں بننے دیا۔
بل منظور کیوں نہیں ہوسکے؟
سینیٹ سے مذکورہ بلوں کی منظوری روکنے کے لیے ری پبلکن پارٹی نے 'فلی بسٹر' کا راستہ اختیار کیا۔ فلی بسٹر امریکی سینیٹ کی ایسی روایت ہے جس کے ذریعے اقلیتی پارٹی کسی بھی قانون پر ہونے والی بحث کو طول دے کر اسے منظور ہونے سے روک سکتی ہے۔
ری پبلکنز اور ڈیموکریٹک پارٹی دونوں ہی میں فلی بسٹرنگ کے حق اور مخالفت میں رائے پائی جاتی ہے۔ ان بلز کی منظوری کے لیے فلی بسٹرنگ کو روکنے کے لیے سینیٹ میں ڈیموکریٹس کے اکثریتی لیڈر چک شومر نے رولز میں ترمیم کی تجویز پیش کی تھی۔
فلی بسٹرنگ کو روکنے کے لیے 100 کے ایوان میں 60 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ جب کہ سینیٹ میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ سینیٹرز کی تعداد پچاس پچاس ہے۔ چک شومرنے فلی بسٹرنگ کو ختم کرنے کے لیے 60 ووٹوں کی شرط کو 50 پر لانے کے لیے قواعد میں ترمیم پیش کی تھی۔
لیکن دوقدامت پسند ڈیموکریٹ سینیٹرز جو مینچن اور کرسٹین سنیما نے فلی بسٹر ختم کرنے کے لیے قواعد میں ترمیم کی حمایت نہیں کی جس کے بعد یہ دونوں بل ایوانِ بالا سے منظور نہیں ہو سکے۔
سینیٹ سے بلز کی منظوری میں ناکامی کے بعد صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ان کے پاس دیگر آپشن ختم نہیں ہوئے ہیں۔
قانون سازی کا پس منظر
امریکی سیاسی نظام میں ووٹنگ سےمتعلق ضوابط پر ریاستوں کا اختیار ہوتا ہے۔حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ووٹنگ کے لیے زیادہ سے زیادہ رعایتیں اور آسانی دینے کی حامی ہے۔
البتہ ری پبلکن پارٹی کے نزدیک رائے دہی کے عمل تک رسائی کو بڑھانے کے لیے دی جانے والی رعایتوں سے انتخابی بے ضابطگیوں یا دھاندلی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ انہی خدشات کی بنا پر ری پبلکنز ایسی بہت سی رعایتوں کی مخالفت کرتے ہیں۔
ووٹنگ کے طریقۂ کار اور انتخابات سے متعلق انتظامی اقدامات پر پائے جانے والے اسی اختلافِ رائے کی وجہ سے امریکہ میں 1965 کے ووٹنگ رائٹس ایکٹ کے نفاذ کے بعد بھی ریاستوں میں ووٹنگ سے متعلق بنائے گئے ضابطے بحث کا موضوع رہے ہیں۔
ان مجوزہ بلوں میں 'فریڈم ٹو ووٹ ایکٹ' کا مقصد یہ تھا کہ ری پبلکن پارٹی جن ریاستوں میں حکومت میں ہے وہاں ووٹنگ میں حائل رکاوٹوں اور جیری مینڈرنگ یعنی اپنی مرضی کی حد بندیوں جیسے اقدامات کو روکا جائے۔
اس کے علاوہ فریڈم ٹو ووٹ ایکٹ میں انتخابی مہم میں دس ہزار ڈالر سے زائد فنڈنگ دینے والوں کی شناخت ظاہر کرنے کی تجویز بھی دی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں فنڈنگ کرنے والوں کی شناخت رازداری میں رکھنے کی رعایت دی گئی ہے۔
دوسرا بل 'جان لوئیس ووٹنگ رائٹس ایڈوانسمنٹ ایکٹ' 2013 میں سپریم کورٹ کے ووٹنگ رائٹس ایکٹ سے متعلق دیے گئے فیصلے سے پیدا ہونے والی تبدیلی کو ختم کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا تھا۔
امریکہ کی سپریم کورٹ نے 2013 میں اپنے ایک فیصلے میں ووٹنگ کے قانون کے سیکشن 4 کے اس حصے کو غیر مؤثر کر دیا تھا جس میں رائے دہی سے متعلق قوانین میں ترمیم سے قبل ریاستوں کو وفاق سے توثیق کا پابند کیا گیا تھا۔
ووٹنگ رائٹس ایکٹ میں یہ شرط خاص طور پر نسلی بنیاد پر قانون سازی کی تاریخ رکھنے والی جنوبی ریاستوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے عائد کی گئی تھی۔
وائس آف امریکہ سے وابستہ رپورٹر برائے محکمۂ انصاف اور ایف بی آئی مسعود فریور نے گزشتہ برس اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ متعدد جائزوں اور عدالتی مقدمات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں انتخابی بے ضابطگیوں کا وجود تو ہے لیکن اس کا اثر اتنا محدود ہے کہ انہیں بآسانی نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔
البتہ ریاستیں عموماً ووٹنگ رائٹس سے متعلق قانون سازی اور قانونی چارہ جوئی کے لیے انتخابی شفافیت کے بارے میں اپنے خدشات کو بنیاد ی وجہ بتاتی ہیں۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے پہلے ہی ان ریاستوں نے ووٹنگ کے ضوابط سخت کرنا شروع کر دیے تھے جہاں ری پبلکنز کو اکثریت حاصل تھی۔ برینن سینٹر کے مطابق 2008 میں پہلے سیاہ فام امریکی صدر براک اوباما کے منتخب ہونے کے بعد ووٹنگ رائٹس سے متعلق قانون سازی کی یہ نئی لہر اٹھی۔
سپریم کورٹ کا حقِ رائے دہی سے متعلق قانون سازی پر 2013 کا یہ فیصلہ شیلبی بمقابلہ ہولڈر کیس میں دیا گیا تھا جو ووٹنگ رائٹس کے حامیوں کے لیے دھچکہ ثابت ہوا۔
خدشات کیا ہیں؟
بیسویں صدی میں امریکہ میں جب شہری حقوق اور بالخصوص رائے دہی کے لیے تحریک تیز ہوئی تو کئی قوانین میں تبدیلیاں آئیں۔ 1920 میں خواتین کو ووٹ کا حق ملا۔ 1962 میں مرکزی انتخابات میں پول ٹیکس کی شرط ختم ہوئی اور دو برس بعد سپریم کورٹ نے ریاستی انتخابات سے بھی اس شرط کا خاتمہ کر دیا۔اس قانون سازی اور عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ووٹنگ کو کسی بھی ٹیکس کی ادائیگی سے مشروط کرنے کی گنجائش ختم کری گئی۔بالآخر 1965 میں ووٹنگ رائٹس ایکٹ کی مںظوری ہوئی جس سے امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک کا تاریخی سنگ میل طے ہوا۔
اس قانون کی منظوری کے بعد امریکہ میں ووٹنگ رائٹس کے نئے دور کا آغاز ہوا۔ سیاہ فام امریکیوں کو پندرہویں آئینی ترمیم کے بعد رائے دہی کا حق تو پہلے ہی حاصل تھا البتہ اس ووٹنگ رائٹ ایکٹ کے ذریعے جن بہت سی رکاوٹوں کو دور کیا گیا، اس کے فوری اثرات برآمد ہونا شروع ہوئے۔
’امریکن سول لبرٹیز یونین‘ کے مطابق 1965 کے آخر تک ڈھائی لاکھ سیاہ فام ووٹر رجسٹر ہوئے جن میں سے ایک تہائی کو ریاستوں میں مقرر فیڈرل ایگزامنرز نے رجسٹر کیا۔
ماہرِ سیاسیات ٹوڈ شا کے مطابق سیاہ فام رائے دہندگان کی رجسٹریشن میں اضافے کے نتیجے میں سیاہ فام امریکی شہریوں نے بڑی تعداد میں انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینا شروع کیا۔لیکن امریکہ میں شہریوں کے حقِ رائے دہی کے لیے کام کرنے والے اداروں اور ماہرین کے مطابق ووٹنگ کے مساوی حق تک رسائی میں ابھی بھی رکاوٹیں حائل ہیں۔
ووٹنگ رائٹس سے قانون سازی میں تیزی کیوں؟
ووٹنگ رائٹس کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ووٹنگ لیب‘ کے مطابق 2021 حقِ رائے دہی سے متعلق بڑھتی ہوئی قانون سازی کے اعتبار سے تاریخی سال رہا۔ووٹنگ لیب کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کے دوران 50 ریاستوں اور واشنگٹن ڈی سی میں ووٹنگ سے متعلق مجموعی طور پر 3000 قوانین گردش میں رہے۔
ان بلز میں سے 300 قوانین بن گئے ہیں جن میں ووٹنگ لیب کے بقول ووٹر کے حق اور مخالفت میں بننے والے دونوں طرح کے قوانین شامل ہیں۔
امریکی صحافی روب گارور نے وائس آف امریکہ کے لیے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ حقِ رائے دہی امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک کا اہم عنصر رہا ہے لیکن 2021 میں اسے مزید اہمیت حاصل ہوئی ہے۔ان کے مطابق 2020 کے انتخابات میں صدر جو بائیڈن کی کام یابی میں اقلیتی ووٹرز نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
وہ اس کے لیے خاص طور پر ری پبلکن پارٹی کے حامیوں کی اکثریت رکھنے والی ریاست جارجیا کی مثال دیتے ہیں جہاں اقلیتی ووٹرز کی رجسٹریشن اور رائے دہی کے لیے مہم چلائی گئی۔ جس کے نتیجے میں 1992 کے بعد پہلی مرتبہ 2020 میں ڈیموکریٹک پارٹی کو کام یابی ملی اور وہاں سے پارٹی نے سینیٹ کی دو نشستیں بھی حاصل کیں جس کی وجہ سے ایوان بالا میں اسے اکثریت حاصل ہوئی۔
وہ لکھتے ہیں کہ صدارتی انتخاب میں شکست کے بعد صدر ٹرمپ نے انتخابی دھاندلی کے بے بنیاد الزامات عائد کیے جن پر ان کے کئی حامی اعتبار کرتے ہیں۔ ان دعوؤں پر اعتبار کرنے والوں میں بعض قانون ساز بھی شامل ہیں۔
اس لیے انتخابی نتائج کے بعد سے جن ریاستوں میں ر ی پبلکن کو اکثریت حاصل ہے وہاں ووٹنگ سے متعلق ایسے قوانین بنائے جارہے ہیں جن سے غیر سفید فام طبقے، جسمانی طور پر معذور افراد سمیت اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ووٹ دینا مزید مشکل ہو رہا ہے۔ان قوانین کی وجہ سے 2020 میں وبا کے پیشِ نظر ووٹروں کو دی گئی بہت سی آسانیاں ختم ہورہی ہیں۔
انتخابی قوانین میں ترامیم کی یہ مہم، جسے ناقدین لاکھوں امریکی اور بالخصوص سیاہ فام امریکی اور اقلیتی رائے دہندگان کے ووٹ دینے کے امکانات محدود کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان بے بنیاد دعوؤں کے بعد سے زور پکڑ گئی ہے جن کے مطابق نومبر 2020 میں انتخابی دھاندلی کی وجہ سے وہ دوبارہ منتخب نہیں ہوسکے۔
گزشتہ برس ری پبلکن قانون سازوں نے 49 ریاستوں میں انتخابی اصلاحات کے عنوان سے لگ بھگ 400 بل متعارف کرائے تھے۔بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے 'برینن سینٹر فور جسٹس' نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ یہ بلز کئی امریکیوں کے لیے ووٹ دینا مزید دشوار بنا دیں گے۔
ان 400 بِلز میں سے 30 قانون بن چکے ہیں۔ یہ تعداد 2011 میں منظور ہونے والے قوانین سے بھی زیادہ ہے جب ری پبلکنز نے اسی طرح بڑے پیمانے پر ایسی قانون سازی کی مہم شروع کی تھی۔
روپ گارور کے مطابق بعض مثالیں ایسی بھی ہیں جہاں ریاستیں صرف ووٹنگ کے لیے وبا سے مخصوص رعاتیں واپس نہیں لے رہیں بلکہ ان میں سے بعض نے ووٹوں کی گنتی کی توثیق، انفرادی ووٹ چیلنج کرنے اور ووٹرز کی مدد کے لیے رضا کاروں کے خلاف فوج داری قوانین کے تحت کارروائی کرنے جیسے ضوابط بھی بنائے ہیں۔
قانون سازی پر آرا
سیاہ فام امریکیوں کی تاریخ کی پروفیسر کیرول اینڈرسن کے مطابق امریکہ میں اس کی طویل تاریخ ہے کہ جب سیاہ فام امریکیوں نے طاقت کے ڈھانچے کو استعمال کرنے کے لیے اپنی آزادی کا استعمال کیا ہے تو قوانین میں تبدیلیاں کردی جاتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2020 میں ہم نے دیکھا کہ سیاہ فام امریکی ووٹ دینے گھروں سے نکلے، اس جمہوریت کی خاطر گیارہ گیارہ گھٹنے قطاروں میں کھڑے رہے۔ اس کے نتیجے میں ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس سے جانا پڑا، سینٹ میں کایا پلٹ گئی۔ اس کے جواب میں اب سفید فام غیض و غضب ووٹرز کو محدود کرنے کے قوانین کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔
لیکن ری پبلکنز اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ ریاستی امور میں مرکز کی مداخلت کو روک رہے ہیں بلکہ وہ ڈیموکریٹس پر قوانین میں تبدیلی کرکے انتخابات کا پلڑا اپنے حق میں کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
حالیہ قانون سازی کی مخالفت کے بارے میں ری پبلکن سینیٹر لنزی گراہم نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ لبرل ڈیموکریٹس ریاستوں سے انتخابات کے متعلق اختیارات واپس لے کر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
کیرول اینڈرسن کا کہنا ہے کہ ہم سول سوسائٹی کے ذریعے ووٹنگ رائٹس کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ ہمارے بہت سے ساتھی رائے دہندگان کو دبانے کے لیے بنائے گئے قوانین کے خلاف قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں۔ ہمارے پاس ایسے ساتھی ہیں جو تمام رکاوٹیں عبور کرکے ووٹ رجسٹریشن کرا رہے ہیں۔ امریکہ کی جمہوریت کی اس جدوجہد میں سول سوسائٹی ہی سب سے کار گر ہے۔
اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔