افغانستان میں انسانی صورت حال بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس سال افغانستان میں ہنگامی بنیادوں پر امداد کے لیے پانچ ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ اس وقت کوئی 24 ملین لوگوں کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔ جبکہ تقریباً دس لاکھ بچے شدید نوعیت کی ناقص غذائی صورت حال کے سبب خطرے میں ہیں۔ شدید سردی اور ملک کے کئی علاقوں میں قحط سالی کی صورت حال بھی سر پر منڈلا رہی ہے۔
دوسری جانب طالبان یہ چاہتے ہیں کہ انہیں افغانستان کی جائز حکومت کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے۔ جب کہ ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے انہیں تسلیم نہیں کیا ہے کیونکہ دوسرے ملکوں خاص طور پر مغربی ملکوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے اقتدار میں آنے سے پہلے ملک میں آباد تمام قومیتوں پر مشتمل حکومت بنانے، حقوق انسانی کی پاسداری کرنے، خواتین کو ان کے حقوق دینے کے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے ہیں۔ لیکن طالبان کا اصرار ہے کہ انہوں نے اپنے وعدے پورے کیے ہیں اور بقول ان کے شریعت کے مطابق سب کو ان کے حقوق دیے گئے ہیں اور ایک جامع حکومت بھی قائم کردی گئی ہے۔ اور اس تنازعے کا کہ انہوں نے وعدے پورے کیے یا نہیں، خمیازہ افغانستان کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
امریکہ سمیت دوسرے بہت سے ممالک افغانوں کی مدد کے لیے کوشاں ہیں۔ فنڈز فراہم کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ عام آدمی کی مدد کی جائے۔ یورپی یونین نے بھی وہاں اپنا دفتر کھولنے کا اعلان کیا ہے اور اب ناروے میں بھی افغان سول سوسائٹی اور افغان حکومت کے نمائندوں اور اتحادی ملکوں کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے۔ ہر چند کہ ناروے نے یہ واضح کیا ہے کہ یہ اجتماع کسی بھی صورت طالبان کی کسی جائز حیثیت کو تسلیم کرنا نہیں ہے۔ لیکن اس کا کہنا ہے کہ ہمیں ان لوگوں سے بات کرنی چاہئیے جو عملًا وہاں حکومت چلا رہے ہیں۔ اور اس قسم کی کانفرنسوں اور اجتماعات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا میں بتدریج یہ رجحان بڑھ رہا ہے کہ طالبان کو ’ انگیج‘ کیا جانا چاہئیےاور اسی پس منظر میں طالبان کا بھی موقف یہ ہے کہ ناروے مذاکرات یورپ کے ساتھ مثبت تعلقات کا راستہ بن جائیں گے۔
افغان صحافی اور تجزیہ کار ڈاکٹر حسین یاسا کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ طالبان جو اس وقت اندرون اور بیرون ملک مشکلات کا شکار ہیں، مختلف ملکوں میں وفود بھیج کر اور ناروے میں ہونے والی کانفرنس جیسے اجتماعات میں شرکت کرکے بین لاقوامی برادری کو یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ افغانستان کے لوگوں، امارتِ اسلامی کے مخالفین اور عالمی برادری کے ساتھ مشترکہ اقدار رکھتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ اپنے معاملات چلا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر چند کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ابھی طالبان کو جائز حکومت کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ افغانستان پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ اور دنیا صرف اس لیے افغان عوام کی مصیبتوں اور انسانی المیے سے صرف نظر نہیں کر سکتی کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتی۔ اور یورپی یونین کا دفتر کھولنے کا اعلان اور ناروے کانفرنس جیسے اجتماعات عالمی سطح پر اسی سوچ کا مظہر ہیں اور دنیا کے اس عزم کو ظاہر کرتے ہیں کہ اس سے قطع نظر کہ افغانستان میں کون حکومت کر رہا ہے۔ وہ حکومت عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے یا نہیں۔ کم سے کم طالبان کے ساتھ ایک ’ڈی فیکٹو‘ قسم کا تعلق تو قائم کر سکتے ہیں۔ تاکہ وہاں انسانی المیے واقع ہونے کے خطرے کو روکا جا سکے۔
نجم رفیق کا تعلق پاکستان کے انسی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک اسٹڈیز سے ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئےے ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کے جائز ہونے کے حوالے سے یقینًا دنیا کے تحفظات ہیں۔ کیونکہ وہ کسی جمہوری عمل کے نتیجے میں وہاں برسر اقتدار نہیں آئے ہیں۔ نہ کسی پر امن ذریعے سے انہیں اقتدار منتقل ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تحفظات کو دور کیا جانا چاہئیے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ناروے کانفرنس کا انعقاد یہ ثابت کرتا ہے کہ ناروے اور بطور مجموعی یورپ اس حوالے سے بات چیت کے لئے تیار ہے کہ افغانستان میں حقوق انسانی یا خواتین وغیرہ کے حقوق یا جامع حکومت نہ بنائے جانے پر جو تحفظات ہیں، ان کو دور کرنے کے سلسلے میں طالبان مزید کیا کر سکتے ہیں، اور وہ اس وقت کیا کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کا افغانستان میں دفتر کھولنے کا اعلان ہو یا ناروے کانفرنس یا دوسرے عالمی فورمز پر طالبان کی آمد، وہ نہیں سمجھتے کہ یہ کسی بھی اعتبار سے طالبان حکومت کو تسلیم کیے جانے کی جانب کوئی قدم ہے۔ بلکہ یہ ڈائیلاگ کا ایک عمل ہے، جس میں دنیا یہ جاننے کی کوشش کررہی ہے کہ طالبان اپنے وعدوں کے سلسلے میں مزید اور کتنا آگے جا سکتے ہیں۔ اور طالبان یہ جاننے کی کوشش کر رہےہیں کہ وہ اپنے عزائم کے سلسلے میں دنیا کو کتنا مطمئن کر سکتے ہیں۔ کون، کتنا اور کب کامیاب ہو گا اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ مگر یہ طے ہے کہ دنیا افغانستان کو نظر انداز کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان حکومت کو کسی نہ کسی انداز میں تسلیم کیے بغیر وہاں لوگوں کی صحیح طور پر مدد نہیں کی جاسکتی۔ مگر نجم رفیق اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی اداروں خاص طور سے غیر سرکاری تنظیموں یا این جی اوز کے ذریعے وہاں بڑے پیمانے پر کام کیا جاسکتا ہے جو کسی حد تک ہو بھی رہا ہے۔ اسے توسیع دی جاسکتی ہے۔ اور طالبان بھی محض اس لیے اس کام میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش نہیں کریں گے کہ انہیں تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں انہیں ایک ایسے وقت میں جب کہ اندرون ملک اور بیرون ملک وہ پہلے ہی مشکلات میں مبتلا ہیں، افغانستان کا عام آدمی بھی ان کے خلاف ہو جائے گا، جس کے وہ متحمل نہیں ہو سکتے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں ان کی حکمرانی کے پانچ ماہ سے کچھ زیادہ کے عرصے میں افغان برآمدات ایک ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔
اپچھلے ہفتے کابل میں طالبان دور حکومت کی جو پہلی اقتصادی کانفرنس منعقد ہوئی، اس میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ساٹھ ملکوں کے نمائندوں نے شرکت بھی کی لیکن اس کے نتیجے میں وہاں کتنی سرمایہ کاری ہو گی، یا بگڑتی ہوئی معیشت کو کتنا سہارا ملے گا، یہ واضح نہیں ہے۔تاہم اقوام متحدہ اور کئی ممالک کے نمائندوں کی شرکت کو تجزیہ گار ’ ڈی فیکٹو سفارتکاری‘ ضرور کہتے ہیں۔