صحت کے عالمی عہدے دار یہ توقع کر رہے ہیں کہ اومیکرون کی لہر سے عالمی وبا پر کنٹرول کرنے کی ایک نئی راہ کھلے گی ، اگرچہ آنے والے ہفتے وائرس کے پھیلاؤ کے اعتبار سے مشکل ثابت ہو سکتے ہیں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے بعد نمودار ہونے والا ممکنہ ویرینٹ زیادہ خطرناک ثابت ہو۔
امریکہ میں اومیکرون اپنی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعداسی انداز میں زوال کی جانب بڑھ رہا ہے جیسا کہ برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں دیکھنے میں آیا تھا۔اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ماہرین یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ مارچ کے اختتام تک دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔
امریکہ میں ان دنوں عالمی وبا سے روزانہ لگ بھگ دو ہزار اموات ہو رہی ہیں اور ان میں اضافہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے، لیکن اسپتالوں میں لائے جانے والے مریضوں کی تعداد کم ہونا شروع ہو گئی ہے جس سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اموات میں بھی کمی ہو گی۔
اومیکرون کے تیزی سے پھیلاؤ میں طبی ماہرین کو یہ مثبت پہلو نظر آتا ہے کہ وائرس میں مبتلا ہونے والوں کے اندراس وبا کے خلاف قدرتی مدافعت پیدا ہو رہی ہے۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن کے صحت سے متعلق انسٹی ٹیوٹ کے ڈاکٹر کرسٹفر موری کہتے ہیں کہ اومیکرون کی لہر کی وجہ سے عالمی سطح پر اس وبا کے خلاف قدرتی مدافعت میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔
ماہرین کے اندازے کے مطابق وبا کے آغاز سے اب تک دنیا کی 57 فی آبادی کو کم ازکم ایک بار یہ وائرس لگ چکا ہے۔
یونیورسٹی آف ٹیکساس میں کووڈ نائنٹین کے شعبے کی ڈائریکٹر لورین اینسل میئرز کہتی ہیں کہ اومیکرون کی لہر کے اختتام سے پہلے ابھی ہمیں بہت سی پریشانیوں سے گزرنا ہے، لیکن اطمینان کا پہلو یہ ہے اومیکرون ہی وہ سنگ میل ہے, جس کے بعد عالمی وبا کے وائرس کے ساتھ ہمارا تعلق قائم کر کے ہمیں اس کے ساتھ رہنا اور جینا سکھائے گا۔
امریکی میں وبائی امراض کے اعلیٰ ترین ماہر، ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے اتوار کو اے بی سی چینل کے پروگرام دس ویک میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ سب سے اچھا پہلو یہ ہے کہ کووڈ 19 کا سفر اب اس جانب بڑھ رہا ہے جب اسے قابو میں رکھنا آسان ہو جائے گا، اور امریکہ میں زندگی کافی حد تک اپنے معمول کی جانب لوٹ جائےگی۔
پیر کے روز عالمی ادارہ صحت نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ہم اس سال وبا سے متعلق ہنگامی صورت حال کے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں اور یہ کہ اومیکرون ہمیں زندگی کو اپنے معمول پر لانے میں مدد دے گا۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب اس وائرس سے مقابلے کے لیے ہمارے پاس ویکسین اور ادویات موجود ہیں اور ہم نے اس کا علاج کرنا سیکھ لیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اس وبا کی حیثیت سانس کی ایک عام بیماری جیسی ہو جائے گی اور ہمیں اس کے ساتھ رہنا اور جینا سیکھنا ہو گا۔