امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں اب امریکہ کا سفیر موجود ہوگا لیکن اس سے پاک امریکہ تعلقات میں خاطر خواہ تبدیلی رونما ہوتی نظر نہیں آ رہی، مستقبل میں بھی امریکہ کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے افغانستان کے امور اور دہشت گردی کے معاملات اہم رہیں گے۔
امریکی سینیٹ نے جمعرات کے روز ڈانلڈ آرمین بلوم کی پاکستان کے لیے بطور سفیر نامزدگی کی منظوری دے دی ہے۔ ڈانلڈ بلوم اگست 2018 کے بعد امریکہ کے پاکستان کے لیے پہلے سفیر ہوں گے۔ اس سے پہلے ڈیوڈ ہیلے پاکستان میں امریکی سفیر رہے جس کے بعد ساڑھے تین برس تک یہ عہدہ خالی رہا۔
ڈانلڈ بلوم کیرئیر ڈپلومیٹ ہیں اور وہ اس سے پہلے کابل، یروشلم، قاہرہ، بغداد اور کویت میں سفارتی خدمات سر انجام دےچکے ہیں۔
گزشتہ سال دسمبر میں امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائےامور خارجہ سے اپنی نامزدگی کی منظوری کے لیے منعقد ہونے والی سماعت سے خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ان کی منظوری ہوئی تو وہ پاکستان پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ بلا امتیاز تمام دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی کرے۔
امریکہ کے کیٹو انسٹی ٹیوٹ میں دفاعی اور خارجہ پالیسی کی سٹڈیز میں ریسرچ فیلو سحر خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امبیسیڈر بلوم کا شاندار سفارتی تجربہ، خطے کے بارے میں ان کی کثیر پہلو معلومات انہیں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتر کرنے میں مدد دیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بہتری اس بات پر منحصر ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کن امور پر دباؤ ڈالنا چاہتی ہے۔ بلوم نے اپنی نامزدگی پر سینیٹ میں سماعت کے دوران کہا تھا کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق، کاؤنٹر ٹریررازم کے معاملات پر کام کریں گے۔ ان سے پہلے سفرا بھی انہی معاملات پر کام کرچکے ہیں۔
امریکی ادارے ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے امور کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگلمین نے سحر خان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ نیا سفیر بھی واشنگٹن سے ہی اپنے احکامات لے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بہرحال یہ خوش آئند ہے کہ اب پاکستان میں امریکہ کا سفیر موجود ہوگا جس سے سفارت کاری میں تیزی نظر آئے گی۔
کوگل مین کا کہنا تھا کہ امریکہ جہاں سمجھتا ہے کہ بھارت میں کارروائیاں کرنے والے دہشت گرد گروہوں، جیسے لشکر طیبہ اور جیش محمد پر پاکستان کو مزید کام کرنا ہوگا وہیں پاکستان کا خیال ہے کہ امریکہ دہشت گردی پر مزید کام کرنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ امر تعلقات میں بہتری کے لیے مفید نہیں ہے۔
سحر خان نے کاؤنٹر ٹیررازم کے معاملات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب تک دونوں ممالک اس بات پر اتفاق نہیں کر لیتے کہ کون سے گروہ دہشت گرد ہیں، اور ماضی کی پالیسی ہی چلتی رہی تو پھر انہیں نہیں لگتا کہ کاؤنٹر ٹیررازم کے معاملے میں کوئی پیش رفت ہو سکے گی۔
البتہ کوگلمین کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان افغانستان میں موجود داعش خراسان اور القاعدہ کی جانب سے خطرے کو کم کرنے میں امریکہ کی مدد کرتا ہے تو کاؤنٹر ٹیررازم میں دونوں ممالک میں تعاون ہوتا نظر آتا ہے۔
سحر خان بھی اس بات سے متفق نظر آئیں کہ مستقبل میں بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کا انحصار افغان امور پر رہے گا۔
آنے والے امریکی سفیر نے سینیٹ میں سماعت کے دوران کہا تھا کہ وہ پاکستان سے معاشی رابطے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بطور سفیر منظور ہونے پر وہ پاکستان کے ساتھ منڈیوں تک رسائی میں مسائل، ڈجیٹل معیشت کے ضوابط، املاک دانش کے تحفظ اور معاہدوں کے نفاذ جیسے معاملات پر کام کریں گے۔
مائیکل کوگلمین کا کہنا تھا کہ اگرچہ امریکہ، پاکستان کے ساتھ دوطرفہ تجارتی تعلقات کو بڑھانا چاہتا ہے لیکن نہ ہی یہ اس کی پہلی ترجیح ہے اور وہ پاکستان کے جیواکنامک وژن میں بھی فٹ نہیں بیٹھتا۔ ان کے مطابق پاکستان کی توجہ افغانستان اور وسطی ایشیا کے ساتھ رابطے بڑھانا ہے جہاں اب امریکی رسوخ گھٹ رہا ہے، جب کہ پاکستان چین اور روس کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھا رہا ہے جو امریکہ کے مسابقت کار ہیں۔
سحر خان کہتی ہیں کہ اگر مستقبل میں پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلتا ہے تو اس سے امریکہ اور اس کے تاجروں کی حوصلہ افزائی ہوگی کہ وہ پاکستان سے معاشی روابط مضبوط کریں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ڈانلڈ بلوم کے بطور سفیر منظور ہونے کے بعد ایک ٹوئٹ میں انہیں مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے لیے پاکستان کے ساتھ شراکت داری خطے کی سلامتی، تجارت، سرمایہ کاری، موسمیاتی بحران اور انسانی حقوق میں بہتری کے لیے اہم ہے۔
پاکستان کے امریکہ کے لیے سفیر اسد مجید خان نے بھی اپنی ٹوئٹ میں ایمبیسیڈر بلوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ وہ مستقبل میں ان کے ساتھ کام کر سکیں، تاکہ پاکستان امریکہ شراکت داری کو مزید مضبوط کیا جائے۔
ڈانلڈ بلوم کو گزشتہ سال اکتوبر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے لیے سفیر کے طور پر نامزد کیا تھا۔