سور کا دل لگوانے والا دنیا کا پہلا شخص، ستاون سالہ ڈیوڈ بینٹ تاریخی تجربے کے دو ماہ بعد انتقال کرگیا۔
میری لینڈ یونیورسٹی ہاسپٹل میں بینٹ کے دل کی تبدیلی کا آپریشن ہوا تھا ، بدھ کو کیے گئے یونیورسٹی ہسپتال کے اعلان کے مطابق ڈیوڈ بینٹ کا انتقال منگل کی شام ہوا تھا۔
اعلامیہ میں انتقال کی وجہ نہیں بتائی گئی اور صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ مریض کی حالت گزشتہ چند دنوں سے خراب تھی۔
یونیورسٹی اعلامیہ کے مطابق ڈیوڈ بینٹ کے بیٹے ڈیوڈ بینٹ جونیئر نے زندگی کے آخری ایام میں سور کا دل ٹرانسپلانٹ کرنے کے تجربے کی پیشکش پر ہسپتال انتظامیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاندان کو اس بات کی توقع ہے کہ اس تجربے سے اعضاّ کی کمیابی کے مسئلے کو ختم کرنے کی کوششوں میں مدد ملے گی۔
یونیورسٹی اعلامیہ کے مطابق ڈیوڈ بینٹ جونیئر نے کہا ہے کہ " ہم ہر اختراعی لمحے، ہر خواب یہاں تک کہ ہر بے خواب رات کے لیے شکرگزار ہیں جو اس تاریخی کوشش میں گزری ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ ان تجربات کا آغاز ہوگی نہ کہ اختتام۔"
کئی دہائیوں سے ڈاکٹر زندگی بچانے والے ٹرانسپلانٹ کے لیے جانوروں کے اعضا کو استعمال کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بینٹ ہیگر میری لینڈ کا رہنے والا ایک عام مزدور تھا ۔ انھوں نے اس تازہ ترین تجربے کے لیے خود کو صرف اس لیے پیش کیا تھا کہ دوسری صورت میں ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔
اے پی کی خبر کے مطابق، یہ دل چار سالہ سور کا تھا جس میں کئی جنیاتی تبدیلیاں کی گئی تھیں تاکہ وہ انسانی جسم کے نظام سے ہم آہنگ ہو سکے۔
جنیاتی طور پر اس دل کی تیاری کے پروجیکٹ کے سربراہ میری لیند یونیورسٹی کےپاکستانی نژاد ڈاکٹرمنصور محی الدین تھے، جنھوں نے وی او اے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اس دل کی تیاری کے لیے کم از کم دو دہائیوں سے کوششیں کی جارہی تھیں۔
انھوں نے کامیاب ٹرانسپلانٹ کے وقت ہی خبردار کردیا تھا کہ مریض کے دیگر اعضا کافی نحیف ہوچکے ہیں اور اسے تازہ دم دل سے پمپ ہونے والے خون کو قبول کرنے اور اس کے کام کو موثر بنانے کے لیے بہت احتیاط سے کوششیں کی جارہی ہیں۔
(خبر کا کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے)