سنگاپور کے محققین نے ایک ایسا اسمارٹ فوم مادہ تیار کیا ہے جو انسانی جِلد کی طرح کی خصوصیات کا حامل ہے جو ربورٹ کو قریب میں موجود چیزوں کو محسوس کرا سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق یہ مادہ انسانی جلد کی طرح سطح کو خود بخود مرمت کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
مصنوعی طور پر تیار کیا جانے والا یہ فوم ایک ہائلی ایلاسٹک پولی مر ہے جسے فلوروپولی مر کے ساتھ ملا کر بنایا گیا ہے۔ اس فوم کو ’اے آئی فوم‘ کا نام دیا گیا ہے۔
پولی مر دراصل ایک کیمیائی کمپاؤنڈ ہے جو کہ متعدد ایک جیسے مالی کیولز سے مل کر بنتا ہے۔
تحقیق کے سربراہ محقق بینجامن ٹی نے وضاحت کی کہ اس طرح کے مادے کے لیے بے شمار ایپلی کیشنز موجود ہیں خاص طور پر روبوٹک اور مصنوعی ڈیوائسز کے لیے جہاں انسانوں کے ارد گرد کام کرتے وقت روبوٹ کو مزید ہوشیار ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس مادے میں انسان کی محسوس کرنے کی حس کی طرح خصوصیات ڈالنے کے لیے محققین نے اس میں مائیکرواسکوپک دھاتی ذرات شامل کرنے کے ساتھ ساتھ فوم کے نیچے چھوٹے چھوٹے ایلکٹروڈس بھی لگائے ہیں۔
بینجامن ٹی کے مطابق جب فوم پر دباؤ ڈالا جائے گا تو اس میں موجود دھاتی ذرات پولی مر سے قریب ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی برقی خصوصیات کو تبدیل کر لیتے ہیں۔ یہ تبدیلی فوم میں جڑے ایلکٹروڈز فوراً بھاپ لیتے ہیں جو کمپیوٹر کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ ایسے میں یہ ربورٹ کو پیغام دیتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ جب میں اپنے انگلی سینسر کے قریب لے کر جاتا ہوں تو سینسر فوراً ان تبدیلیوں کو ناپتا ہے اور پھر وہ میرے چھونے کے مطابق اس کا ردِ عمل ظاہر کرتا ہے۔
یہ فوم نا صرف روبوٹک ہاتھ پر لگائی جانے والی طاقت کو پہچانتا ہے بلکہ یہ اس طاقت کی سمت کو بھی پہچانتا ہے جو ربورٹ کو مزید ہوشیار اور ایک دوسرے کے ساتھ ربط قائم کرنے والا بناتا ہے۔
بینجامن ٹی کا کہنا ہے کہ ’اے آئی فوم‘ اپنی نوعیت کی پہلی قسم ہے جس میں سیلف ہیلنگ خصوصیت اور دباؤ محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی سمت کو بھی پہچانتا ہے۔
’سیلف ہیلنگ‘ ایک ایسی صلاحیت ہوتی ہے جو چیز کے بیرونی نقصان کی خود مرمت کرتی ہے۔ یہ خصوصیت انسان کی جلد میں پائی جاتی ہے اور جب انسان کو چوٹ لگتی ہے تو اس خاصیت کے تحت جلد خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے مصنوعی اعضا استعمال کرنے والے افراد کو چیزیں اٹھانے کے دوران اپنے روبوٹک ہاتھ کا زیادہ بہتر استعمال کرنے کی اجازت مل سکتی ہے۔
محققین کو یہ فوم تیار کرنے میں تقریباً دو برس کا عرصہ لگا ہے اور بینجامن ٹی اور ان کی ٹیم کو امید ہے کہ اس مادے کو پانچ برس میں عملی طور پر استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔