رسائی کے لنکس

ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی جیت: کیا 'ہندوتوا' کا نظریہ آگے بڑھ رہا ہے؟


بھارت کی سیاسی جماعتوں، ان کے رہنماوں اور تجزیہ کاروں نے پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے نتائج پر ملا جلا ردعمل ظاہر کیا ہے۔

پانچ میں سے چار ریاستوں اترپردیش، اتراکھنڈ، منی پور اور گوا میں بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں واپس آگئی ہے۔ جب کہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے کانگریس کی حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے۔

جہاں بی جے پی نے انتخابی نتائج کو مودی اور یوگی حکومت کی پالیسیوں اور کاموں کی عوامی حمایت اور توثیق و تائید قرار دیا ہے وہیں حزبِ اختلاف اور تجزیہ کاروں نے اسے ہندوتوا کی جیت قرار دیا ہے۔

’2024 کے پارلیمانی انتخابات کا فیصلہ ہو گیا‘

وزیر اعظم نریندر مودی نے نتائج کے اعلان کے بعد دہلی میں بی جے پی کے صدر دفتر میں کارکنوں سے خطاب میں کہا کہ ان انتخابی نتائج نے 2024 کے پارلیمانی انتخابات کا فیصلہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 37 سال میں پہلی بار یوپی میں کوئی حکومت مسلسل دوسری بار قائم ہوئی ہے۔ انہوں نے ملک کے دانشوروں سے اپیل کی کہ وہ بھارت کی سیاست کے بارے میں نئے سرے سے سوچنا شروع کریں۔

انہوں نے کانگریس اور سماجوادی پارٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کچھ پارٹیاں خاندانی سیاست کرتی ہیں۔ لیکن اب عوام نے طے کر لیا ہے کہ وہ خاندانی سیاست کا خاتمہ کر دیں گے۔

الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں گڑبڑ کا الزام

بی جے پی کو چیلنج کرنے والی سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے کہا کہ یوپی کے انتخابی نتائج نے ثابت کر دیا کہ بی جے پی کی نشستیں کم کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے پارٹی کو 124 نشستیں ملنے پر عوام کا شکریہ ادا کیا۔

ترنمول کانگریس کی صدر اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) میں گڑ بڑ کا الزام لگایا اور اکھلیش یادو سے کہا کہ وہ ان مشینوں کی فارنزک تحقیقات کا مطالبہ کریں۔

اس سے قبل بھی ای وی ایم کے ذریعے دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں جن کی تردید حکومت اور الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جاتی رہی ہے۔

’شکست سے سبق سیکھیں گے‘

یوپی میں کانگریس پارٹی کو 2017 میں سات نشستیں ملی تھیں لیکن اس بار اس کے صرف دو امیدوار ہی کامیاب ہوئے ہیں۔ ایک پرتاپ گڑھ ضلع کے رامپور خاص سے آرادھنا مشرا اور دوسرے گورکھپور کے نزدیک فریندہ سے ویریند رچودھری کامیاب ہوئے ہیں۔

کانگریس کی جنرل سیکریٹری پرینکا گاندھی نے یوپی الیکشن میں زبردست محنت کی تھی۔ انہوں نے 160 ریلیاں اور 40 روڈ شوز کیے تھے۔ لیکن کانگریس کو صرف 2.3 فی صد ووٹ ہی حاصل ہوئے۔

کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے اشارہ دیا ہے کہ وہ آگے کی حکمتِ عملی طے کرنے کے لیے جلد ہی پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کا اجلاس طلب کریں گی۔

راہول گاندھی نے ایک ٹوئٹ میں شکست کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ وہ نتائج سے سبق سیکھیں گے اور عوام کی فلاح و بہبود کے کام کرتے رہیں گے۔

پارٹی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے کہا کہ پارٹی کو اتراکھنڈ، پنجاب اور گوا میں بہتر کارکردگی کی امید تھی۔ ان کے مطابق جذباتی ایشوز بنیادی ایشوز پر حاوی ہو گئے۔

پرینکا گاندھی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ان کی پارٹی حزب اختلاف کی اپنی ذمہ داری انجام دیتی رہے گی۔

کانگریس کے متعدد رہنماؤں نے انتخابی نتائج پر اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ سینئر رہنما غلام نبی آزاد نے کہا کہ انتخابی نتائج سے ہم سکتے میں ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اعلیٰ قیادت پارٹی کی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرے گی۔

سینئر رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے کہا کہ ہمیں پارٹی کے آئیڈیا آف انڈیا کے نظریے پر قائم رہنا اور اسے اور مضبوط کرنا چاہیے۔

’ہندوتوا کارڈ کی کامیابی‘

کانگریس کے مرکزی ترجمان ایم افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے جس طرح ہندوتوا کا کارڈ کھیلا اور جس طرح انہوں نے اقلیت مخالف بیانات دیے اس کا سب سے زیادہ اثر پڑا۔

انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے پاس لیڈرز کی فوج ہے جو انتخابی مہم میں مصروف تھی۔ اس کے پاس وسائل کی بھی بھرمار ہے۔ ان کے مطابق بی جے پی کے پاس میڈیا کی بھی طاقت ہے۔ وہ اس کے حق میں فضا ہموار کرتی رہتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پرینکا گاندھی نے سب سے زیادہ محنت کی لیکن چونکہ کانگریس کے پاس انتخابی مہم میں شرکت کرنے کے لیے لیڈرز کی فوج نہیں ہے اس لیے پارٹی کو نقصان پہنچا۔


سینئر تجزیہ کار اوماکانت لکھیرہ نے ایم افضل کی باتوں کی تائید کی اور کہا کہ بی جے پی نے قوم پرستی اور ہندوتو اکے ایجنڈے کو سرفہرست رکھا اور اس کو اس کا فائدہ ہوا۔ حزبِ اختلاف کے پاس اس کے توڑ کے لیے کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بی جے پی اپنے خلاف ایشوز جیسے کہ مہنگائی، بے روزگاری، کسانوں کی ناراضگی اور آوارہ مویشیوں کے مسائل وغیرہ کو پیچھے کرنے میں کامیاب رہی۔

ان کے بقول حالانکہ یوپی کی اپوزیشن جماعت سماجوادی پارٹی نے اپنی نشستوں میں کافی اضافہ کیا ہے لیکن یوگی حکومت سے عوام کی ناراضگی کا اسے جو فائدہ ملنا چاہیے تھا وہ نہیں ملا۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ دہلی اور یو پی میں بی جے پی کی حکومت ہے اور اس نے حکومت مخالف رجحانات کو حکومت کی حمایت میں تبدیل کر دیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی عوام میں یہ پروپیگنڈہ کرنے میں کامیاب رہی کہ وہ ایک اچھی حکومت دے سکتی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے کرونا وبا کے دوران عوام کو جو مفت راشن تقسیم کیا اس کا بھی اثر رہا۔

’مودی حکومت نے ملکی سیاست بدل کر رکھ دی‘

سینئر تجزیہ کار آنند کے سہائے نے کہا کہ مودی حکومت نے ملک کی سیاست بدل کر رکھ دی ہے اب اس میں مذہب کو ترجیح حاصل ہو گئی ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس حکومت نے عوام کی اکثریت کی سوچ بھی بدل دی ہے۔ اب سیاست میں ہندو احیا پسند طبقات کو ایک اہم مقام حاصل ہو گیا ہے۔

ان کے مطابق بی جے پی نے اس الیکشن کو ہندو بنام مسلم بنا دیا۔ یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے جو یہ بیان دیا تھا کہ یہ الیکشن اسی فی صد بنام بیس فی صد ہے اس نے کام کیا اور ہر طرف ہندوتوا کی سیاست کا بول بالا رہا۔ ان کے مطابق یہ ایک اشتعال انگیز اور غیر اخلاقی بیان تھا۔ خیال رہے کہ یوپی میں مسلمانوں کی آبادی 20 فی صد ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ مودی اور یوگی کے کام کرنے کا طریقہ تو ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کو پسند ہے ہی ، یوگی کا زعفرانی لباس بھی اس کو بہت اچھا لگتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ ہمارا ہم مذہب ہے اور اس کی حکومت قائم رہنی چاہیے۔

ان کے مطابق یہ نتائج آنے والی سیاست پر کافی اثر ڈالیں گے اور بی جے پی نے جو نئی سیاست شروع کی ہے اس کو جلد ختم کرنا مشکل ہوگا۔ اب تو تعلیم یافتہ افراد کی سوچ بھی وہی ہو گئی ہے۔

بی جے پی مذہب کی بنیاد پر تقسیم کی سیاست کرنے کے الزام کی تردید کرتی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنے 80 اور 20 والے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ 80 فی صد لوگ ان کے کاموں کے حامی ہیں اور 20 فی صد مخالف۔

’بی جے پی کی جیت کے لیے اویسی اور مایاوتی ذمہ دار‘

شیو سینا رہنما سنجے راوت نے الزام لگایا کہ مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کی صدر مایاوتی نے بی جے پی کو جیتنے میں مدد دی۔ ان کے بقول ان دونوں کو پدم بھوشن اور بھارت رتن ایوارڈز ملنے چاہئیں۔

مایاوتی نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ بی جے پی اور میڈیا کی مسلم مخالف مہم نے مسلمانوں کو سماجوادی پارٹی کے قریب کر دیا۔ انہوں نے اپنی پارٹی کی شکست کے لیے اکھلیش یادو کو ذمہ دار قرار دیا اور بی ایس پی کے بی جے پی کی بی ٹیم ہونے کے الزام کی تردید کی۔

اسد الدین اویسی نے انتخابی تنائج پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے یوپی میں 38 امیدوار اتارے تھے جن میں سے 37 کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔ پارٹی کو مجموعی ووٹوں کا صرف صفر اعشاریہ 43 فی صد ووٹ ہی ملا ہے۔

کیا عام آدمی پارٹی بی جے پی کا متبادل بن جائے گی؟

ادھر اس الیکشن میں اگر بی جے پی کو شاندار کامیابی ملی ہے تو کامیابی حاصل کرنے والی دوسری جماعت عام آدمی پارٹی ہے۔ وہ ایسی پہلی علاقائی پارٹی بن گئی جس نے دو ریاستوں دہلی کے بعد پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیابی حاصل کی۔

اروند کیجری وال نے اس کامیابی کے بعد پارٹی دفتر میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پہلے دہلی میں انقلاب آیا، پھر پنجاب میں آیا اور اب پورے ملک میں آئے گا۔

خیال رہے کہ عام آدمی پارٹی نے پنجاب کی 117 رکنی اسمبلی میں 92 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے امیدواروں نے سابق وزرائے اعلیٰ چرنجیت سنگھ چنی، کیپٹن امریندر سنگھ، پرکاش سنگھ بادل اور سکبھیر سنگھ بال کو اور ریاستی کانگریس صدر نوجوت سنگھ سدھو کو شکست دی۔

عام آرمی پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ اب وہ گجرات اور ہماچل پردیش میں اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کرے گی۔ گجرات میں اسی سال کے آخر میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اروند کیجری وال اور پنجاب کے نامزد وزیر اعلیٰ بھگونت سنگھ مان اگلے ماہ گجرات کا دورہ کریں گے۔

دہلی کے سیاسی حلقوں میں یہ بات موضوع گفتگو ہے کہ کیا عام آدمی پارٹی آگے چل کر قومی سیاست میں کوئی کردار ادا کرے گی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بی جے پی کو اس سے ہوشیار ہو جانا چاہیے۔ جبکہ بی جے پی کے بعض رہنما اسے بعید از قیاس قرار دے رہے ہیں۔

بی جے پی کے بعض رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عام آدمی پارٹی کی جیت کو بی جے پی کے لیے چیلنج نہیں سمجھنا چاہیے۔ اسے بی جے پی کا متبادل بننے کے لیے لوک سبھا کی کم از کم 100 نشستیں جیتنی ہوں گی۔

بعض مبصرین عام آدمی پارٹی کی کامیابی کے بارے میں متعدد مثالیں پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ بالکل نریندر مودی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ وہ ایک طرف ہندوؤں کو تو دوسری طرف نچلی برادریوں کو خوش کرنے کے فیصلے کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسکولوں اور اسپتالوں کے قیام کے بارے میں مودی کے طرز پر پروپیگنڈہ کیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے عوام میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔

مبصرین کے مطابق کیجری وال کی حکومت ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرتی جس سے اقلیتوں یا مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا الگ سے کوئی تاثر پیدا ہو۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG