رسائی کے لنکس

Shehbaz Sharif
Shehbaz Sharif

کسی کو ڈکٹیشن دینے کی ضرورت نہیں، الیکشن کب ہوں گے یہ فیصلہ پارلیمنٹ کو کرنا ہے: شہباز شریف

13:21 16.3.2022

عمران خان کا تحریکِ عدم اعتماد کے مقابلے کا اعلان، بلاول کا وزیرِ اعظم سے پھر مستعفی ہونے کا مطالبہ

وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں اُن کے خلاف جتنا مرضی گٹھ جوڑ کر لیں، وہ ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے سے قبل وزیرِ اعظم عمران خان مستعفی ہو جائیں، ورنہ وہ دارالحکومت آ کر اُن کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائیں گے۔

پنجاب کے ضلع وہاڑی کی تحصیل میلسی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران کان کا کہنا تھا کہ اگر ان کے خلاف حزبِ اختلاف کی تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو جو اُن (اپوزیشن) کے ساتھ ہو گا، کیا وہ اِس کے لیے تیار ہیں؟

عمران خان نے سیاسی مخالفین نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کا نام لے کر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب چور ہیں اور سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف جھوٹ بول کر ملک سے باہر گئے جب کہ شہباز شریف منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں۔ اِسی طرح آصف زرداری کی کرپشن پر فلمیں بن چکی ہیں۔

لاہور کے ناصر باغ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ جتنا مزہ لاہور میں آ رہا ہے، اتنا کہیں نہیں آیا، پیپلز پارٹی کی بنیاد لاہور میں رکھی گئی۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی کو کمزور کرنے کی سازش ہوئی۔ یہ سازش پیپلز پارٹی کے خلاف نہیں عوام اور جمہوریت کے خلاف تھی۔ وہ سوچ رہے تھے قائد عوام کو تخت دار پر لٹکا کر پارٹی کو ختم کر دیں گے۔

مزید جانیے

13:22 16.3.2022

علیم خان بھی ترین گروپ میں شامل، 'تحریکِ انصاف کسی ایک فرد کی جماعت نہیں ہے'

ملک کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما ایسے وقت میں پارٹی سے علیحدگی اختیار کر رہے ہیں جب اپوزیشن جماعتوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا ہوا ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف اندرونی اختلافات اور پارٹی رہنماؤں کی ناراضی کے سبب مشکلات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔

اتوار کو پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعظم عمران خان کے سابق ترجمان ندیم افضل چن نے حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کیا۔ وہ پیپلز پارٹی سے ہی پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ دوسری جانب تحریک انصاف بلوچستان کے صدر اور وزیرِ اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی یار محمد رند نے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری سے ملاقات کی ہے۔

اسی طرح پنجاب میں تحریک انصاف کے اہم رہنما علیم خان بھی پی ٹی آئی کے جہانگیر خان ترین گروپ کے ساتھ مل گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے ناراض رہنماؤں کے اس گروپ کا اجلاس لاہور میں ہوا جس میں علیم خان نے بھی شرکت کی۔

اس اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں علیم خان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر تحریک انصاف کے مخلص کارکنان کو تشویش ہے۔ چار دن میں 40 ارکان صوبائی اسمبلی سے ملاقات کی ہے۔ ان ارکان نے پنجاب میں طرزِ حکمرانی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف میں جتنے بھی گروپ ہیں ان کو پارٹی کو بچانے کے لیےیکجا کرنا ہو گا کیوں کہ یہ کسی فردِ واحد کی جماعت نہیں ہے۔ آخری وقت تک کوشش ہے کہ تحریک انصاف کو مضبوط کیا جائے۔

علیم خان نے مزید کہا کہ انہوں نے وزیرِ اعلیٰ بننے کےلیے عمران خان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ انہوں نے ان کا ساتھ اس لیے دیا تھا کیوں کہ انہیں سیاست میں ایک نئی امید کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔

مزید جانیے

13:32 16.3.2022

عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد سوچ سمجھ کر لائے ہیں: حزبِ اختلاف

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد قومی اسمبلی میں جمع کرا دی ہے۔

اسلام آباد میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اپوزیشن سوچ سمجھ کر تحریک عدمِ اعتماد لائی ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد عوام کی خواہشات کے مطابق لا رہے ہیں اور اگر اب یہ تحریک نہ لاتے تو عوام نے ہمیں کبھی معاف نہیں کرنا تھا۔

سابق صدر آصف علی زرداری نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کو 172 اراکین سے زائد کی حمایت حاصل ہے کیوں کہ حکومت کے اپنے لوگ حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران خان اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قرار دے کر عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ تحریکِ عدم اعتماد کسی کے ذاتی مفاد کے لیے نہیں لائے بلکہ یہ قومی مفاد میں ہے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اب عمران خان کے مقبول نعرے نہیں چلیں گے۔ عوام اُن کی حقیقت جان چکی ہے اور اب ان کے دھوکے میں نہیں آئے گی۔

تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے اپوزیشن متفقہ فیصلہ کرے گی۔

مزید جانیے

13:35 16.3.2022

تحریک عدم اعتماد کے آئینی تقاضے کیا ہیں؟

پاکستان کی سیاست میں اس وقت تحریک عدم اعتماد کا شور بہت سنائی دے رہا ہے۔جو منگل کے روز قومی اسمبلی میں جمع بھی کرا دی گئی ہے۔ جس کے ذریعےمتحدہ حزب اختلاف وزیر اعظم عمران خان کو ان کے عہدے سے ہٹانا چاہتی ہے۔ جبکہ حکومت اپنا دفاع کر رہی ہے۔

جب بات تحریک عدم اعتماد کی ہوتی ہے تو اس حوالے سے چند باتیں یا اصطلاحات بڑے تواتر سے استعمال ہوتی ہیں، مثلاً نمبر گیم، فلور کراسنگ، اوپن بیلٹ اور سیکرٹ بیلٹ، اور آئینی تقاضے وغیرہ۔ آج ہم اسی بارے میں گفتگو کریں گے کہ تحریک عدم اعتماد کیا ہے۔ اس کے لیے آئینی تقاضے کیا ہیں اور ان اصطلاحات کا مطلب کیا ہے جو اس سلسلے میں استعمال کی جاتی ہیں۔

پارلیمانی جمہوریتوں میں، جیسی پاکستان، بھارت یا برطانیہ وغیرہ میں ہے۔ جہاں پارٹی کی بنیاد پر انتخابات ہوتے ہیں۔ اور جو پارٹی ایوان زیریں میں جسے پاکستان میں قومی اسمبلی کہا جاتا ہے، ارکان کی اکثریت حاصل کرلے، وہ اپنا پارلیمانی لیڈر منتخب کرتی ہے۔ جو وزیر اعظم کہلاتا یا کہلاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ پارٹی یا پارٹیاں جن کے ارکان کی مجموعی تعداد کم ہوتی ہے، حزب اختلاف کہلاتی ہیں۔ وہ بھی اپنا ایک پارلیمانی لیڈر منتخب کرتی ہیں جو قائد حزب ا اختلاف کہلاتا یا کہلاتی ہے۔

اگر حزب اختلاف حکومت کی کار کردگی سے مطمئن نہ ہو اور حکومت گرانا چاہے تو اس کا آئینی طریقہ یہ ہے کہ وہ حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے۔ ان دنوں پاکستان میں یہی ہو رہا ہے کہ حزب اختلاف کی پارٹیاں متحد ہوکر حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور کرانےکی کوشش کررہی ہیں جس کے لیے آئین میں باقاعدہ ایک طریقہ کار درج ہے۔ جس کے مطابق وزیر اعظم کو ان کے عہدے سے ہٹانے کے لیے قومی اسمبلی کے ارکان کی مجموعی تعداد کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اور یہاں پر نمبرز گیم کی اصطلاح سامنے آ تی ہے۔ یعنی فریقین یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کے پاس ارکان کی مطلوبہ تعداد موجود ہے۔

مزید جانیے

مزید لوڈ کریں

XS
SM
MD
LG