'اپوزیشن کا مقابلہ کسی روایتی وزیرِ اعظم سے نہیں'
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ عمران خان جیت چکے ہیں، اپوزیشن کا مقابلہ کسی روایتی وزیرِ اعظم سے نہیں عمران خان سے ہے۔
فیصل جاوید کے مطابق "پوری قوم اپنے لیڈر کپتان کے ساتھ ہے، جب عوام اپنا فیصلہ کرلے تو عوام کے نمائندے ان کے خلاف جا کر اپنی سیاست ہی ختم کریں گے۔ جو ہو رہا ہے بہترین ہے یہ ایک عظیم قوم بننے جارہی ہے۔ انشاء اللہ"
قومی اسمبلی کے اجلاس میں ہنگامہ خیزی کا امکان
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے بلائے گئے قومی اسمبلی کا اجلاس آج ہو رہا ہے۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری ایجنڈے میں اپوزیشن کی جانب سے پیش کردہ تحریک عدم اعتماد کی قرارداد سرِ فہرست ہے۔
امکان ظاہر جا رہا ہے کہ پارلیمانی روایات کے مطابق اجلاس کا ایجنڈا معطل کر کے اسے تحریک انصاف کے رکن اسمبلی خیال زمان کی دعائے مغفرت کے بعد معطل یا ملتوی کردیا جائے گا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریکِ عدم اعتماد کی قرارداد پیش کیے جانے سمیت توجہ دلاؤ نوٹس، وقفہ سوالات سمیت 15 نکاتی ایجنڈا ترتیب دیا گیا ہے۔
اسپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کی اجازت ملنے پر 152 اراکین اسمبلی کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کو عہدے سے ہٹانے کے لیے قرارداد پیش کی جائے گی۔
حزبِ اختلاف کی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں لہذا انہیں منصب سے الگ کیا جائے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اراکین کو اجلاس میں شرکت کی تاکید کر رکھی ہے تاہم اطلاعات ہیں کہ حکومتی اراکین اس اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اراکین گزشتہ دو ہفتوں سے اسلام آباد میں ہی قیام کیے ہوئے ہیں۔ آج کے اجلاس کا اہم پہلو تحریک انصاف کے ناراض یا منحرف اراکین اسمبلی کی شرکت ہوگا جو کہ گزشتہ دو ہفتوں سے پارلیمنٹ لاجز کے بجائے سندھ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ یہ ناراض اراکین حکومت کی جانب سے کسی انتقامی کارروائی یا گرفتاری کے خدشے کے سبب پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے زیرِ انتظام اسلام آباد کے سندھ ہاؤس میں ہیں۔
حزبِ اختلاف اسپیکر قومی اسمبلی سے سابق قبائلی اضلاع سے منتخب رکن اسمبلی علی وزیر کے اجلاس میں شرکت کے لیے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کا مطالبہ بھی کرے گی۔
حزب اختلاف نے آٹھ مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن اور تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی تھی۔
حزب اختلاف نے اسپیکر قومی اسمبلی پر الزام عائد کر رکھا ہے کہ اسد قیصر نے 14 روز کے اندر اجلاس نہ بلا کر آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی درجۂ حرارت کے باعث قومی اسمبلی کا یہ اجلاس ہنگامہ خیز رہے گا۔
قواعد کے مطابق اسمبلی اجلاس کے آغاز کے سات روز کے اندر عدم اعتماد کی اس قرارداد پر رائے شماری کرانا لازم ہے۔
اپوزیشن کا حکومت کے مقابلے میں ارکان کی تعداد زیادہ ہونے کا دعویٰ
جب مشکلات میں گھرے کپتان نے ڈٹ کر مقابلہ کیا
''وی اسٹل ہیو چانسز ان دی کپ''(ہم اب بھی ورلڈ کپ جیت سکتے ہیں)، یہ وہ تاریخی الفاظ تھے جو سن 1992 کے کرکٹ ورلڈ کپ میں شرکت کرنے والی پاکستان ٹیم کے کپتان عمران خان نے آسٹریلیا کے خلاف اہم ترین میچ سے قبل صحافیوں سے گفتگو میں ادا کیے تھے۔
عمران خان کے اس بیان کے بعد ایونٹ میں گرین شرٹس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور باقی رہ جانے والے گروپ میچز جیت کر سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کیا ۔ جس کے بعد ناقابلِ شکست نیوزی لینڈ کو لاسٹ فور یعنی سیمی فائنل میں شکست دے کر ایونٹ سے باہر کیا اور 25 مارچ کو انگلینڈ کو 22 رنز سے ہرا کر ٹرافی اپنے نام کی۔
گرین شرٹس کی اس تاریخی فتح کو آج بروز جمعہ تیس برس مکمل ہو گئے ہیں۔اگرچہ عمران خان پاکستان ٹیم کے کپتان تو نہیں لیکن وہ ملک کے وزیراعظم ہیں مگر انہیں اپنی وزارتِ عظمیٰ برقرار رکھنے کے لیے تیس برس قبل کی طرح ہی کچھ مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے۔
اس وقت انہیں تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے اور ان کے اپنے کئی ساتھی ان سے ناراض ہو کر خلاف ہو گئے ہیں جب کہ اتحادی بھی اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھے ہیں۔ تیس برس قبل کرکٹ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک رسائی کے لیے بھی عمران خان کو بحیثیت کپتان کئی مشکلات کا سامنا تھا جن میں کئی اہم کھلاڑیوں سے محروم ہونا بھی شامل تھا۔