شاہ زین بگٹی کا حکومت سے علیحدگی اور اپوزیشن کی حمایت کا اعلان
جمہوری وطن پارٹی کے رہنما شاہ زین بگٹی نے کہا ہے کہ وہ وفاقی کابینہ سے مستعفی ہونے اور اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وفد سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں شاہ زین بگٹی نے کہا کہ ملک کی صورتِ حال دیکھتے ہوئے وہ حکومت سے الگ ہو رہے ہیں۔
واضح رہے کہ جمہوری وطن پارٹی کی قومی اسمبلی میں ایک ہی نشست ہے اور شاہ زین بگٹی وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے امورِ بلوچستان تھے۔
پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ شاہ زین بگٹی اور جمہوری وطن پارٹی نے بہادری پر مبنی فیصلہ کیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں بلوچستان کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ اگر پاکستان اور وفاق کو بچانا ہے تو لوگوں کو انصاف دینا ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک عوام کے حقیقی نمائندے سامنے نہیں آئیں گے مسائل حل نہیں ہوں گے۔
بلاول بھٹو کے بقول حکومت کے دیگر اتحادیوں سے بات چیت ہو رہی ہے۔ ان کے خیال میں وہ سب فیصلہ تو کر چکے ہیں۔ اب یہ ان پر ہے کہ کیسے وہ اس کا اعلان کرتے ہیں۔
جو پارٹی چھوڑ کر گئے وہ ہم میں سے تھے ہی نہیں: پرویز خٹک
وزیرِ دفاع پرویز خٹک کا کہنا ہے کہ جو اراکین اسمبلی پارٹی چھوڑ کر گئے ہیں وہ ہم میں سے نہیں تھے اور انہیں ضرور پچھتاوا ہو گا۔
اسلام آباد میں منعقدہ جلسے سے خطاب میں پرویز خٹک نے کہا کہ جب تک عمران خان زندہ ہیں، عوام ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
پرویز خٹک کے بقول اپوزیشن کو تکلیف یہی ہے کہ عمران خان ملک کو آگے لے جانا چاہتے ہیں۔
- By سارہ حسن
اسلام آباد: اپوزیشن اور حکومت کے جلسے، شاہراہوں پر سیاسی کارکنوں کا رش
پاکستان کا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ویسے تو شہرِ اقتدار اور سرکاری ملازمین کا شہر کہلاتا ہے تاہم گزشتہ چند برسوں میں دارالحکومت میں منعقد ہونے والے دھرنوں، لانگ مارچز، احتجاج اور ریلیوں نے اس شہر کی وجہِ شہرت کو بھی تبدیل کر دیا۔
اسلام آباد کو جڑواں شہر راول پنڈی شہر سے ملانے والے فیض آباد ہی کو لے لیجیے، کون ہے جو اسلام آباد میں داخلے کے مرکزی مقام سے واقف نہ ہو۔
تحریک لیبک پاکستان کے دھرنے ہوں، 23 مارچ کی پریڈ یا پھر بھرپور عوامی طاقت کے مظاہرے کے لیے بلائے گئے سیاسی جلسے۔ ان سب میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے فیض آباد۔
اسلام آباد کے بارے میں عمومی خیال یہی ہے کہ اس شہر کے اوقات کار اور معمولات بھی دفتری اوقات یعنی صبح نو سے شام پانچ بجے کے تحت ہی چلتے ہوں گے اور ہفتہ وار تعطیل میں شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کم ہو گا۔
لیکن گزشتہ لگ بھگ ڈیڑھ دہائی سے ملک کے مختلف صوبوں سے دارالحکومت کا رخ کرنے والوں کی تعداد کا اندازہ اسلام آباد کے تیزی سے پھیلتی سرحدوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
ہفتے اور اتوار کو بھی سڑکوں پر اب گاڑیاں نظر آتی ہیں لیکن سرینا ہوٹل کے سامنے واقع ٹریفک سگنل صرف ایک مرتبہ رکنے کے بعد کراس کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہفتہ وار دنوں میں یہ سگنل کراس کرنے کے لیے کم سے کم دو سے تین بار ٹریفک لائٹ کے سبز ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تاہم ستائیس مارچ کو آنے والا اتوار معمول کا دن نہیں ہے۔ شہر میں کافی گہما گہمی ہے۔ شہری گھروں میں مقیم ہیں۔ انتظامیہ نے شہریوں کو غیر ضروری نقل وحرکت محدود رکھنے کی تجویز دی ہے لیکن حکمران جماعت تحریکِ انصاف ‘لاکھوں کارکنوں’ کو اسلام آباد میں لا کر اپنا جلسہ کر رہی ہے۔
تحریک انصاف کا یہ جلسہ بھی فیض آباد کے ایک جانب موجود پریڈ گرؤانڈ میں ہو رہا ہے۔ جہاں وزیراعظم عمران خان بھرپور عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا دعوی کر رہے ہیں۔
پریڈ گرؤانڈ میں جلسے کا پنڈال تیار ہے۔ اسٹیج سج گیا ہے۔ کرسیاں لگ گئی ہیں اور کارکن گلے میں سرخ اور ہرے رنگ کا پارٹی جھنڈا ڈالے فیض آباد پر جمع ہو رہے ہیں۔
دارالحکومت میں ایک اور سیاسی پنڈال بھی سجا ہے۔ گزشتہ ساڑھے تین سال میں اپوزیشن کو متحرک رکھنے میں اہم کردار ادا کرنے والے مولانا فضل الرحمان گزشتہ شب اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ کے کارکنوں کی بڑی تعداد سری نگر ہائے وے پر موجود ہے۔ وہیں پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز اور حمزہ شہباز بھی جی ٹی روڈ پر بسنے والے عوام کا دل فتح کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب گامزن ہیں۔
اپوزیشن عوام کو مہنگائی اور ان کے بقول نا اہل حکومت کے چھٹکارے کے لیے اسلام آباد کی جانب مارچ کرا رہی ہے اور حکومتِ وقت یعنی تحریک انصاف نے امربالعمروف کا نعرہ بلند کر رکھا ہے۔
سیاسی گہما گہمی میں شاہراہ دستور کا احوال بھی جان لیں۔
جلسہ گاہوں کے لاؤڈ اسیپکرز سے اعلانات اور تقاریر ہو رہی ہیں وہیں شاہراہ دستور پر اتنی خاموشی ہے کہ دور سے آتی ہوئی سیکیورٹی کی گاڑی کی آواز اُس کے جانے کے بعد بھی گونج رہی ہے۔
ریڈ زون مکمل سیل ہے اور پے در پے کنٹینروں کی تین منزلیں اور آہنی تاروں سے بنی عارضی دیوار اور حصار نے پارلیمان کو مکمل چھپا دیا ہے۔
سیاسی جماعتوں کو آج کا شو فیض آباد پر ہے جبکہ پیر کو قومی اسمبلی میں ہونے والا اجلاس بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں اپنی اپنی کامیابی کا دعویٰ کر رہی ہیں۔
جے یو آئی (ف) کے کارکنان جلسہ گاہ کی جانب رواں دواں
جمعیت علماء اسلام (ف) کے جلسے میں شرکت کے لیے کارکنان کے قافلے جلسہ گاہ پہنچ رہے ہیں۔ مزید تفصیلات گیتی آرا انیس سے۔