پاکستانی سیاست ایک بار پھر بحرانی دور سے گزر رہی ہے۔ حکمران جماعت پر حزب اختلاف تابڑ توڑ حملے کر رہی ہے۔ دونوں جانب سے بیان بازیوں میں تیزی آرہی ہے اور فریقین اپنے حق میں عوامی طور پر ہرمقبول حربہ بلا امتیاز استعمال کر رہے ہیں۔ معیشت سے لے کر مذہب تک ہر موضوع کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان تمام دعووں میں ایک دعویٰ وہ تھا جو وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی اپنے ایک سیاسی جلسے میں کیا ۔انہوں نے اپنی ایک حالیہ کامیابی کا موازنہ کرتے ہوئے ایک ایسے تاریخی واقعے کا حوالہ دیا جس کا تعلق کئی مورخین اور انسانی حقوق کے کارکن پاکستان میں انتہا پسندی اور مذہبی منافرت کے رجحان سے جوڑتے ہیں۔
وزیر اعظم ذکر کر رہے تھے اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن کی قرار دارتسلیم ہونے کا۔ اسے عالمی فورم پر لانے کا سہرا انہی کی حکومت کو جاتا ہے۔ مگر اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ پاکستان کے لیے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد سب سے اہم واقعہ ہے۔
ہم نے ماہرین سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ کب، کیوں اور کیسے احمدیوں کے خلاف منافرت کو ہوا دے کر سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا رہا اور اس کی وجہ سے کتنا نقصان یا سیاسی فائدہ پہنچا۔
سوشل میڈیا پر جہاں تحریک انصاف کے حامیوں نے وزیر اعظم کے اس بیان کی توجیح پیش کی وہیں ان کے مخالفین نے ان پر الزام لگایا کہ عمران خان نے اپنی حکومت کو مشکلات میں گھرا دیکھ کر مذہبی کارڈ کا استعمال کیا ہے۔ بعض سوشل میڈیا صارفین نے ان پر ’’قادیانی کارڈ‘‘ کھیلنے کا الزام لگایا۔
یاد رہے کہ 2010 میں شمالی امریکہ کے ایک دورے کے موقع پر جب عمران خان سے جماعت احمدیہ سے متعلق قوانین کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آکر انسانوں کے خلاف ہر مبنی بر تفریق قانون کو ختم کر دے گی۔ لیکن 2017 میں فیض آباد دھرنے کے بعد انہوں نے احمدی برادری سے متعلق قوانین میں تبدیلی کے امکان کو رد کیا ہے۔
بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے وزیراعظم کے معاون خصوصی مولانا طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ وزیراعظم نے ایک حقیقت کا اظہار کیا، اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جسے مذہب کارڈ کا استعمال کہا جائے۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مولانا طاہر اشرفی نے کہا کہ ’’جب بھی تاریخ کی آپ بات کریں گے تو آپ ذکر کریں گے کہ پاکستان میں 1974 میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا گیا تھا۔‘‘
انہوں نے ناقدین پر الزام لگایا کہ وہ ایسی باتیں انتشار پھیلانے اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔
پاکستان میں احمدیہ اور ختم نبوت کے معاملے کو مختلف اوقات میں اٹھانے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ انسانی حقوق کی کارکن، محقق اور صحافی رابعہ محمود نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’قادیانی‘‘ کارڈ، جو بقول ان کے ایک تضحیک آمیز اصطلاح ہے، کا استعمال سیاست دان اپنی انتخابی حیثیت کو مضبوط کرنے کے لیے کرتے ہیں۔
ان کے بقول’’احمدیوں کے اشو کو اٹھانا پاکستان میں باقی اقلیتوں کی نسبت آسان ہے۔ ایسے میں اپنے آپ کو ہیرو بنانے کے لیے وہ یہ مسئلہ اٹھا لیتے ہیں، اس کے بعد کوئی آپ کو چھو نہیں سکتا۔ یہ آُپ کو ایک مضبوط پوزیشن بخشتا ہے۔‘‘ انہوں نے احمدی مسئلے کے سیاست میں استعمال کو ’’معیوب سیاست‘‘ سے تشبییہ دی۔
احمدی مسئلے پر سیاست کی تاریخ اور 1953 کی تحریک ختم نبوت
لاہور کی معروف لمز یونی ورسٹی میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ’’دی احمدیز اینڈ دی پالیٹکس آف اکسکلوژن ان پاکستان‘‘ نامی کتاب کے مصنف، علی عثمان قاسمی نے کہا کہ 1953 میں تحریک ختم نبوت کا مقصد اس وقت کے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو گرانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ جو نشانیاں ملتی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس تحریک کو اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب ممتاز دولتانہ کی براہ راست یا بلواسطہ تائد حاصل تھی۔
پر تشدد واقعات کے نتیجے میں لاہور میں مارشل لگ گیا۔ بعد میں ممتاز دولتانہ کی حکومت بھی ختم ہو گئی اور خواجہ ناظم الدین کو بھی اقتدار سے علیحدہ سے ہونا پڑا۔ علی عثمان قاسمی کے مطابق ’’اس کے بعد پنجابی اشرافیہ، فوج، غیر منتخب سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کا اقتدار پر قبضہ مستحکم ہوا۔‘‘
1974 میں بدامنی اور دوسری آئینی ترمیم
علی عثمان قاسمی کہتے ہیں کہ 74 میں دوسری آئینی ترمیم کے پاس ہونے کی بھی یہی توجیح دی جاتی ہے کہ احمدیوں نے ستر کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کی حمایت کی تھی۔ پروفیسر قاسمی بتاتے ہیں کہ اگرچہ احمدیوں کے ووٹ کم تھے، لیکن اس خدشے کے پیش نظر کہ کوئی ’احمدی کارڈ‘ کو ان کے خلاف نہ استعمال کرے، کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ قادیانی نواز حکومت ہے اور سن ترپن جیسے حالات پھر نہ پیدا ہو جائیں، ذوالفقار علی بھٹو نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے، بقول بھٹو کے، ایک ’فائنل سلوشن‘ یا حتمی حل دے دیا۔
اکیسویں صدی کی پاکستانی سیاست اور احمدی مسئلہ
علی عثمان قاسمی کی تحقیق کے مطابق اسی اور نوے کی دہائیوں میں احمدیہ معاملے کو پاکستان میں سیاسی دباؤ کے لیے استعمال نہیں کیا گیا، مگر سن دو ہزار کے بعد ’قادیانی کارڈ‘ کا استعمال پھر بڑھنے لگا۔ مشرف دور میں ’انلائٹنمنٹ ماڈریشن‘ کا سہارا لیا گیا لیکن جب احمدیوں کے لیے علیحدہ ووٹر لسٹیں ختم کرنے کی بات ہوئی تو ملٹری ڈکٹیٹر کو بھی پیچھے ہٹنا پڑا۔ پروفیسر قاسمی کے مطابق ماڈریشن یعنی جدیدیت پر یہی الزامات لگنے لگے کہ جو بھی اسلامائزیشن کے عمل کو الٹنے کی بات کر رہا ہے، وہ ’’قادیانی نواز‘‘ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس شدت سے 2017 کے بعد احمدیوں کا مسئلہ ہمارے سیاسی بیانئے میں شامل ہوا ہے، یہ کافی غیر معمولی اور بہت خطرناک ہے۔
2017 کا فیض آباد دھرنا اور عمران خان
تجزیہ کاروں کے مطابق دو ہزار سترہ کے فیض آباد دھرنے کے ذریعے ن لیگ کو کمزور کرنے اور اس کے دائیں بازو کےبنیادپرست ووٹ بینک میں دراڑیں ڈالنے کے لیے بھی اسی موضوع سے مدد لی گئی ، تحریک لبیک پاکستان وجود میں آئی اور اس معاملے میں عمران خان نے اس کی حمایت کی۔ معروف مذہبی اسکالر اور سیاسی تجزیہ نگار خورشید ندیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ، " ایک حلف نامہ تبدیل کرنے کا معاملہ تھا، اس معاملے پر عمران خان نے سیاسی فائدہ اٹھایا۔‘‘
رابعہ محمود کا کہنا ہے کہ 2017 کا فیض آباد دھرنے کا معاملہ پاکستان کو بہت پیچھے لے گیا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’’جب 2020 میں نیشنل مائنارٹی کمیشن بن رہا تھا تو اس وقت یہ طے تھا کہ اس کمیشن میں احمدی بطور اقلیت شامل ہوں گے لیکن اس کے خلاف بھی مہم چلائی گئی۔‘‘ خود عمران خان کو اپنی معاشی ٹیم میں عاطف میاں کو رکن بنانے پر شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کے مطابق فیض آباد دھرنے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ "معاشرے میں مذہبی معاملات میں تشدد کو فروغ ملا۔ ہجوم کے ہاتھوں جان لینے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔‘‘
احمدیہ مخالف جذبات کا استعمال کتنا کارآمد ہے؟
خورشید ندیم سمجھتے ہیں کہ اگر انتخابی سیاست پر نظر رکھی جائے تو نوازشریف کو 2017 میں زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ ان کے مطابق 2017 میں نوازشریف کے خلاف تمام ریاستی مشینری برسرپیکار تھی۔ ایسے میں بہت سے دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ، یہ مسئلہ بھی شامل تھا۔
عمران خان کے حالیہ بیان کے متعلق بھی وہ یہی موقف رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’مذہب اور سیاست اب آہستہ آہستہ الگ ہو رہے ہیں۔ وہ معاملات جن پر مذہبی طور پر فائدہ اٹھایا جاتا ہے، انہیں اگر آپ سیاسی استحصال کے طور پر استعمال کریں تو پھر ان کا اس قدر پھل نہیں ملے گا۔ جیسے پہلے ہوتا تھا۔‘‘
رابعہ محمود اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں 2017 میں یہ کارڈ نوازشریف کے خلاف کامیاب رہا۔
مذہبی سیاست بطور ’پریشر ٹیکٹک‘
مذہب کے سیاسی استحصال پر بات کرتے ہوئے رابعہ محمود کہتی ہیں کہ لوگوں میں کئی معاملات پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں انہیں مذہب کے نام پر اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ بقول ان کے یہ درست ہے کہ معاشرے میں تشدد ہے، لیکن ختم نبوت کے نام پر اسے منظم کیا جاسکتا ہے۔ اور پھر اسے دباؤ ڈالنے کے عنصر کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔
’’اس سے جو بھی دنگا یا فساد پیدا ہوتا ہے اسے آپ کسی بھی مقصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ جیسے نیوز سائکل کی توجہ ہٹانی ہو، کسی بڑے احتساب یا کرپشن کے سکینڈل سے توجہ ہٹانی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک ایشو کھڑا ہوتا ہے تو آن لائین نفرت پر مبنی مہم شروع ہو جاتی ہے۔ بات حکومت یا فوج کی کسی پالیسی پر چل رہی ہوتی ہے لیکن آن لائین آُپ دیکھتے ہیں کہ کوئی معیوب سا ہیش ٹیگ چل رہا ہوتا ہے۔‘‘
علی عثمان قاسمی کہتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو مابعد سن 2000 کے دور میں پاکستانی سیاست میں اسلام اور ریاست کے بدلتے تعلق کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
بقول ان کے جب بھی لبرل پالیسیوں کی بات ہوتی ہے تو اس سے مزید لوگ مذہبی کارڈ کو استعمال کرتے ہیں۔ اس سے اس موقف کو مزید تقویت ملتی ہے کہ جیسے ملک میں ’قادیانی نواز‘ پالیسیاں بن رہی ہیں۔ تو ایسے میں سیاست دان اپنے آپ کو اس الزام سے بری ہونے کے لیے کہ ہمارا احمدیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، بڑھ چڑھ کر احمدیوں کے خلاف بیانات دیتے ہیں جس سے احمدیوں کی سلامتی اس ملک میں مزید خطرے سے دوچار ہوجاتی ہیں۔
جب وائس آف امریکہ نے مولانا طاہر اشرفی سے سیاست میں مذہب کو استعمال کرنے کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ، ایسا نہیں کہ مذہب کو ہر بار استعمال کیا گیا یا کبھی بھی استعمال نہیں کیا گیا، لیکن بقول ان کے، " بہت سے واقعات ہیں جو درست سمت میں تھے، جن کو ہونا چاہیے تھا۔‘‘