پاکستان نے امریکہ کی جانب سے مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزیاں کرنے والے ممالک کی فہرست میں نام شامل کرنے کو مسترد کرتے ہوئے اسے معروضی حقائق کے برعکس قرار دیا ہے۔
امریکہ کی وزارتِ خارجہ نے بدھ کو دنیا کے ایسے 10 ممالک کی فہرست جاری کی ہے جہاں مذہبی آزادی سے متعلق خصوصی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ ان ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ امریکہ کی طرف سے مذہبی آزادی سے متعلق خصوصی تشویش کے ممالک کی فہرست میں پاکستان کو شامل کرنا شکوک و شبہات کا باعث بن سکتا ہے۔
عاصم افتخار نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہر معاملے پر تعمیری انداز میں دو طرفہ بات چیت ہوتی رہتی ہے، لیکن یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ اس معاملے میں ان رابطوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
دفترِخارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے اور انھیں یقینی بنانے کے لیے قانونی اور انتظامی سطح پر اقدامات کیے گئے ہیں۔
امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بدھ کو مذہبی آزدی کے حوالے سے خصوصی فہرست کا اجرا کرتے ہوئے بتایا تھا کہ خصوصی تشویش کے ممالک میں پاکستان، روس، سعودی عرب، چین، میانمار، ایریٹریا، شمالی کوریا، تاجکستان، ترکمانستان شامل ہیں۔
فہرست میں شامل ممالک سے متعلق جاری کردہ معلومات کے مطابق ان ملکوں میں مبینہ طور پر مذہبی آزادی کی سنگین اور مسلسل خلاف ورزی روا رکھی جا رہی ہے۔ مختلف عقائد کے حامل لوگوں کو اپنی مرضی سے زندگی بسرکرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
امریکہ کی اس فہرست میں بھارت کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
امریکہ کے محکمۂ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ ہر فرد کے مذہب اور عقیدے کی آزادی کے حق کی حمایت کے لیے پرعزم ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم تمام حکومتوں پر زور دیتے رہیں گے کہ وہ اپنے قوانین اور ان کے اطلاق میں پائے جانے والے سقم دور کریں اور مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں میں ملوث افراد کو جوابدہ بنائیں۔
انہوں نے واضح کیا کہ امریکہ مذہبی آزادیوں کے فروغ کے لیے سول سوسائٹی اور مذہبی برادریوں کے کارکنوں اور حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پر عزم رہے گا۔
پاکستان میں مذہبی آزادیوں پر تشویش
عالمی برادری اور انسانی حقوق کی مقامی تنظیمیں پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور توہین مذہب کے قانون کے مبینہ غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ احمدی اور دیگر مذہبی برادریوں کے افراد میں بھی اپنے تحفظ سے متعلق تشویش پائی جاتی ہے۔
مسیحی برداری کے نمائندے اور سماجی انصاف کی سرگرم غیرسرکاری تنظیم سینٹر فار سوشل جسٹس کے سربراہ پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بعض انتہا پسند گروپوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر بھی بعض مذہبی برداریوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
پیٹر جیکب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بعض اوقات مذہبی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملے اور مذہب کی جبری تبدیلی جیسے واقعات باعثِ تشویش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے متعارف کرائے گئے یکساں نصابِ تعلیم پر بعض تحفطات پائے جاتے ہیں۔ اس سے متعلق ملک کی اقلیتی برداریوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔
مردم شماری پر سوال
پیٹر جیکب نے دعویٰ کیا کہ ملک کی گزشتہ مردم شماری کے مقابلے میں حالیہ مردم شماری کے مطابق تمام اقلیتی برداریوں کی مجموعی آبادی میں ان کے بقول اعشاریہ دو فی صد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ پاکستان کی مجموعی آبادی کے اعتبار سے اس شرح کے مطابق مبینہ طور پر پانچ لاکھ افراد کی کمی واقع ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں تحفظات پائے جاتے ہیں کہ اقلیتی برداری کی مردم شماری درست نہیں ہوئی یا لوگ ملک سے چلے گئے ہیں یا ایسا مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے ہوا۔
پیٹر جیکب کے مطابق حکومت کا اس بارے میں کوئی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ البتہ یہ تحقیق طلب بات ہے کہ ایسا کیوں ہوا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی آہنگی طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ ہر پاکستانی شہری کے جان و مال اور اس کے عقائد کو تحفظ دینا پاکستانی ریاست کی ذمے داری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے اقلیتی برداریوں کے نمائندوں کی شکایات کے ازلے کے لیے کوششیں کی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے دعوی کیا کہ پاکستان میں کئی دیگر ممالک کے مقابلے میں اقلیتی برداریوں کے لوگ بہت اچھے انداز میں رہ رہے ہیں۔ گزشتہ ایک دو برسوں میں موجودہ حکومت نے کئی اقدامات کیے ہیں۔
’نصاب میں پہلی بار مذہبی رواداری‘
طاہر اشرفی نے کہا کہ ملک میں جو نیا یکساں تعلیمی نصاب متعارف کرایا گیا ہے اس میں پہلی بار اقلتیوں کی حقوق، بین المذاہب رواداری، ہم آہنگی اور مکالمے کی بات کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجوزہ نصاب میں کوئی ایسی بات نہیں جو متنازع یا اقلیتوں کے خلاف ہو۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان پر توہینِ مذہب کے قوانین کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ ایک سال کے دوران ان کے بقول ایک بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔
طاہر اشرفی نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ ایک سال میں 30 سے زائد واقعات پیش آئے جہاں لوگوں نے توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال کی کوشش کی لیکن حکومت نے بر وقت اقدام کر کے انہیں روک دیا۔
’حکومت کوشش کررہی ہے‘
پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق لال چند ملہی کا موقف ہے کہ ملک میں بعض مسائل موجود ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت انھیں حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک کمیشن بھی قائم کیا ہے۔
ملہی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کرک اور رحیم یار خان میں ہندو برداری کی عبادت گاہوں پر حملوں کے واقعات سامنے آئے لیکن حکام نے بروقت اقدام کر کے ان کارروائیوں میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔
ان کے مطابق موجود ہ حکومت نے سماجی طور پر محروم طبقات اور اقلیتی برداری کے افراد کے تحفظ کے لیے قانونی اور انتظامی سطح پر کئی اقدامات کیے ہیں۔