رسائی کے لنکس

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ پر ازخود نوٹس؛ ’ جو ہوا اس کی کہیں مثال نہیں ملتی‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پر ہونے والی کارروائی کے حوالے سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ آرٹیکل 69 اپنی جگہ موجود ہے لیکن جو ہوا اس کی بھی کہیں مثال نہیں ملتی۔ ‏اگر اسے ہونے دیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔ بظاہر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے جا رہی تھی۔ جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آ گئی۔ تحریکِ عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نے نئی روایت قائم کی اور ایک نیا راستہ کھول دیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر اسپیکر کی رولنگ کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی کارروائی بدھ کو شام چار بجے تک جاری رہی۔ سماعت کے اختتام سے قبل پاکستان مسلم لیگ(ن) کے اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے آج شام اجلاس بلایا ہے البتہ اسمبلی کا عملہ ڈپٹی اسپیکر کا حکم نہیں مان رہا۔ لاہور میں حالات کشیدہ ہیں۔ لگتا ہے آج بھی وزیراعلیٰ کا الیکشن نہیں ہو سکے گا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی طور پر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ عدالت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فیصلہ نہیں کر رہی۔ یک طرفہ فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟

عدالت میں موجود سیکریٹری پنجاب اسمبلی کے وکیل نے کہا کہ اسمبلی میں کافی توڑ پھوڑ ہوئی تھی۔ اس لیے اجلاس 16 اپریل تک ملتوی ہوا۔ آج صبح سے ڈپٹی اسپیکر غائب ہیں۔ ان سے رابطہ نہیں ہو رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج شام ہونے وال اجلاس کا نوٹیفکیشن جعلی ہے۔ اجلاس 16 اپریل کو ہی ہونا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ سسٹم تعاون نہ کر رہا ہو تو عہدیدار آئینی اختیار استعمال کر سکتے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر چاہیں تو اجلاس باغِ جناح میں بھی بلا سکتے ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت کے پاس اکثریت نہیں ہے اس لیے الیکشن نہیں ہونے دیا جا رہا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے حکم میں مداخلت کر سکتے ہیں؟

وکیل سیکریٹری پنجاب اسمبلی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کا نوٹیفکیشن جعلی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا؟

ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس: قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:49 0:00

چیف جسٹس نے کہا کہ جلد بازی میں پنجاب اسمبلی کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دے سکتے۔ پنجاب میں آئیڈیل حالات ہیں کہ عوام سے رجوع کیا جائے۔ قومی اسمبلی کے ارکان کا کنڈکٹ بہت اعلیٰ ہے۔

انہوں نے حکم دیا کہ کل پنجاب کے حوالے سے درخواست کا جائزہ لیں گے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ سنے گا ہائی کورٹ میں معاملہ جائے گا۔

’خارجہ پالیسی کا معاملہ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے نہ آئے‘

قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گزار اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کا رولنگ میں دیا گیا حوالہ نظر انداز کیا جائے اور عدالت ان کے حق میں فوری مختصر حکم نامہ جاری کرے۔ کیس میں جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ کیس میں لاگو نہیں ہوتا۔ کیا سندھ ہاؤس اور آواری ہوٹل لاہور میں جو کچھ ہوا اسے نظرانداز کیا جا سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے منٹس کہاں ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی تحقیقات نہیں ہیں۔ کیا اسپیکر حقائق سامنے لائے بغیر اس طرح کی رولنگ دے سکتے ہیں؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیا اسپیکر آرٹیکل 95 سے باہر جا کر ایسی رولنگ دے سکتے ہیں جو ایجنڈے پر نہ ہو؟ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں نتیجہ اخذ کیا ہے اور انہوں نے کس مواد پر اختیار استعمال کیا؟ عدالت نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا اسپیکر کو اختیار ہے کہ وہ ہاؤس میں ایجنڈے سے ہٹ کر کسی فیکٹس پر جا سکیں؟

ان کا کہنا تھا کہ ایک آئینی طریقہ ہے جس کو بالکل سائیڈ لائن کر دیا جائے، کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ آپ نے یہ بھی بتانا ہے۔ فیصلہ کرنے سے پہلے جاننا چاہتے ہیں کہ سازش کیا ہے جس کی بنیاد پر رولنگ دی گئی۔

بابر اعوان نے بتایا کہ سفارت کار نے دوسرے ملک کی نیشنل سکیورٹی کونسل کا پیغام تین افراد کو پہنچایا۔ سفارت خانے کے ذریعے ہیڈ آف مشن، ڈپٹی ہیڈ آف مشن اور دفاعی اتاشی کو پیغام دیا گیا۔ پاکستان کے سفارت کاروں کی بیرونِ ملک ملاقات کے بعد سات مارچ کو مراسلہ آیا۔ پاکستان کا دفتر خارجہ اس پر نظر ڈالتا ہے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ یہ خارجہ پالیسی کا معاملہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ بات ایک سیاسی جماعت کی جانب سے نہ کی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا نکتہ بھی درست ہے۔ عدالت بھی خارجہ پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتی۔

بابر اعوان نے درخواست کی کہ کیا کچھ باتیں ان کیمرہ ہو سکتی ہیں؟ دفترِ خارجہ نے جو بریفنگ دی ہے وہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔

عدالت نے بابر اعوان کی ان کیمرہ بریفنگ کی استدعا مسترد کردی۔

’ فوج نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیہ سے متفق ہے‘

بابر اعوان نے کہا کہ امریکہ سے آنے والے مراسلے میں چار چیزیں سامنے آئیں۔دفترِ خارجہ نے مراسلہ دیکھ کر وزیرِاعظم اور وزیرِ خارجہ سے اجلاس کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ بات اشاروں میں کر رہے ہیں کہ فلاں فلاں مسئلے پر وہ فلاں ملک پاکستان کے وزیرِ اعظم سے ناراض ہے۔ تحریکِ عدم اعتماد اگر کامیاب نہ ہوئی تو پھر ڈیش ڈیش ہے۔ اگر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو پھر سب ٹھیک ہے۔ آٹھ مارچ کو تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جاتی ہے جس کا ذکر کہیں اور سے آیا۔

پاکستان کے سیاسی بحران کو امریکی میڈیا کیسے دیکھ رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:38 0:00

بابر اعوان نے پاکستان کی فوج کے ترجمان کی نجی ٹیلی ویژن سے گفتگو بھی عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ وہ قومی سلامتی کمیٹی کی میٹنگ کے اعلامیے سے متفق ہیں۔

بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کابینہ نے وزارتِ خارجہ کی بریفنگ پر کیا فیصلہ کیا؟ جب کہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جن پر الزام لگایا گیا ان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟

بابر اعوان نے جواب دیا کہ حکومت نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ وزیرِ اعظم اور کابینہ نے احتیاط سے کام لیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر وزیرِ اعظم کمیشن بنانا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ انہیں معلوم نہیں کون ملوث ہے؟

بابر اعوان نے جواب دیا کہ وزیرِ اعظم کو جو علم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے۔ وزیرِ اعظم تفتیش کار نہیں اس لیے یہ کام متعلقہ لوگوں کو کرنے دیا جائے۔

سیاسی جماعتوں کے ارکانِ اسمبلی کی جانب سے پارٹی پالیسی سے انحراف پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فلور کراسنگ ہر جماعت کے ساتھ ہوتی رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہوگا کہ لوگ انہیں کیوں چھوڑ کر جاتے ہیں۔ وہی چہرے ہر بار ایک سے دوسری جگہ نظر آتے ہیں۔

صدر کے وکیل کا اعتراض

بابر اعوان کے بعد صدر مملکت عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے آرٹیکل 184 تھری کے تحت دائر درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا۔

انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے۔ آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے جسے عدالت پھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اگر عدالت میں ایک کیس چل رہا ہے تو پارلیمنٹ اس پر تبصرہ نہیں کرتی۔ عدالت بھی پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرتی۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت کی طرف سے کوئی بھی ہدایات دائرہٴ اختیار سے تجاوز ہو گا۔ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف عدالت سے رجوع کرنا پارلیمنٹ میں مداخلت ہے۔ اسپیکر کو دی گئی ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہوگا جو غیرآئینی ہے۔ اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیا تو اسپیکر کا ہر فیصلہ ہی عدالت میں آئے گا۔

چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرے کیا تب بھی مداخلت نہیں ہو سکتی؟

اس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ عدالت کو اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ اسپیکر کی رولنگ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ اسپیکر کی رولنگ کو ہاؤس ختم کر سکتا ہے۔

عمران خان کی حکومت کی کارکردگی پر پاکستانی امریکی کیا کہتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:18 0:00

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا نکتہ دلچسپ ہے کہ اسپیکر کی رولنگ غلط ہو تو بھی اسے استحقاق ہے۔ رولنگ کے بعد اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات اور عوام کے پاس جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے وکیل سے پوچھیں گے عوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے تقدس کا احترام کرتے ہیں البتہ جہاں آئین کی خلاف ورزی ہو سپریم کورٹ مداخلت کر سکتی ہے۔ آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی بھی کہیں مثال نہیں ملتی۔ ‏اگر اسے ہونے دیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ بظاہر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے جا رہی تھی جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آ گئی۔ تحریکِ عدم اعتماد پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ نے نئی روایت قائم کی اور ایک نیا راستہ کھول دیا ہے۔

علی ظفر کے دلائل جاری تھے اور اس دوران ساڑھے تین سے زائد کا وقت ہونے پر کمرہٴ عدالت میں موجود اسپیکر اسمبلی کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ میں آج روزے سے ہوں اور کل دلائل دینا چاہوں گا۔

اٹارنی جنرل نے بھی جمعرات کو دلائل دینے کی درخواست کی جس پر چیف جسٹس نے جمعرات کی صبح جلدی سماعت کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ کل صبح ساڑھے نو بجے کیس کی سماعت ہوگی۔

اس کیس میں بیشتر وکلا کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں اور امکان ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی وکلا کے دلائل مکمل ہوگئے تو عدالت کی طرف سے جمعرات کو مختصر فیصلہ سنایا جاسکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG