رسائی کے لنکس

بدکلامی، ہاتھا پائی: سیاسی عدم برداشت کی لہر پاکستانی معاشرے کو کہاں لے جائے گی؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد کے ایک فائیوسٹار ہوٹل میں افطاری ہورہی تھی کہ اچانک شور اٹھا اور تین چار افراد نے ایک شخص کو مارنا شروع کر دیا، ہوٹل کے ملازمین کی دوڑیں لگ گئیں اور افطار و کھانے کا ماحول خراب ہوگیا۔

اس سارے واقعہ کی وجہ وہ مبینہ گالم گلوچ تھی جو ہوٹل میں بیٹھے پاکستان تحریک انصاف کے ہمدرد ایک ڈاکٹر صاحب نے قریب بیٹھے سابق رکن قومی اسمبلی نورعالم خان کے ساتھ کی تھی۔ جس کے بعد مصطفیٰ نواز کھوکھر، ندیم افضل چن اور شیخ وقاص اکرم نے گالیاں دینے والے اس شخص کو سخت جواب دیا اور معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچ گیا۔ اس معاملہ کی تحقیقات جاری ہیں لیکن گزشتہ شام سے یہ واقعہ زیر بحث ہے کہ حالیہ دنوں کی سیاسی تلخی عام لوگوں کے اندر اس قدر بڑھتی جا رہی ہے کہ اب سڑکوں پر لڑائیاں ہوتی نظر آرہی ہیں۔

کراچی میں پی ٹی آئی کی طرف سے ایم کیو ایم کا پرچم نظر آتش ہونے کے بعد ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کے پرچم اور مختلف دفاتر پر لگے پوسٹرز جلانے شروع کردیے ہیں۔

حالیہ دنوں میں ایسا ہی کچھ نیو نیوز کےڈائریکٹر نیوز نصراللہ ملک کے ساتھ ہوا جو پی ٹی آئی اجتجاج کی کوریج کے لیے لاہور میں موجود تھے کہ اس دوران کچھ افراد نے انہیں دھکے دیے اور ان پر لفافہ لینے سمیت دیگر الزامات عائد کیے۔

اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج میں جیو نیوز کی ایک خاتون رپورٹر کو صرف جیونیوز سے تعلق کی بنا پر مبینہ طور پر ہراساں کیا گیا اور انہیں کام کرنے سے روکتے ہوئے ان پر اور ان کے ادارے پر الزامات عائد کیے گئے۔

سڑکوں پر اور معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے زیادہ شدت سوشل میڈیا پر دیکھ جا رہی ہے جہاں نفرت انگیز ٹوئٹس اور پوسٹوں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے۔


پاکستان کےاداروں کے خلاف ٹرینڈز

سوشل میڈیا پر ہر طرف گالم گلوچ کا سلسلہ جاری ہے۔ کسی ایک سیاسی جماعت کی حمایت والی ٹوٹئیٹ پر دوسری طرف سےگالم گلوچ شروع ہو جاتی ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ پاکستانی فوج کے خلاف مختلف ٹرینڈز بنائے جارہے ہیں اور فوج و عدلیہ پر شدید تنقید اور حملے کیے جارہے ہیں۔ یہ حملے اب اس قدر شدید ہوچکے ہیں کہ فارمیشن کمانڈر کانفرنس کے اعلامیہ میں واضح طور پر اس پروپیگنڈہ مہم کا تذکرہ کیا گیا اور اسے ختم کرنے کی بات کی گئی لیکن گذشتہ رات سے اس میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

سوشل میڈیا پر فوج اور عدلیہ کے خلاف تنقید کرنے والے اکاؤنٹس کے بارے میں دیکھا گیا گیا کہ یہ تمام اکاؤنٹس دو سے دس فالورز کے درمیان ہیں اور بیشتر نے پچاس سے کم ٹوئٹس اور ری ٹوئٹس کی ہوتی ہیں۔ یہ تمام اکاؤنٹس ایک ہی موضوع پر یعنی فوج اور عدلیہ کے خلاف تنقید کرنے کے بعد خاموش ہوجاتے ہیں۔ ایسے اکاؤنٹس کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ایسا لگاتار دیکھنے میں آرہا ہے۔

ان اکاؤنٹس سے یہ مواد پھیلتا کس طرح ہے اس بارے میں ڈیجیٹل رائٹس کے حوالے سے کام کرنے والی نگہت داد نے کہا کہ اس معاملہ میں پہلے کمپین شروع کی جاتی ہے۔ اس پر مکمل پلاننگ کی جاتی ہے اور ایسے اکاؤنٹس جن پر بہت زیادہ فالورز ہوتے ہیں ان پر اس مواد کے پیش ٹیگ کے ساتھ چلانا شروع کیا جاتا ہے اور اس کے بعد یہ مواد ان ہیش ٹیگ کے ساتھ چلنا شروع ہوجاتا ہے اور بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس ٹرینڈ میں لوگ شامل ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور اپنی سیاسی نفرتوں کا اظہار کرنا شروع کردیتے ہیں۔

نگہت داد کہتی ہیں کہ پاکستان میں پیکا قوانین ابھی بھی موجود ہیں اگرچہ پیکا ترمیمی آرڈیننس ختم ہوچکا ہے لیکن اس کے باوجود پیکا قوانین کے تحت اگر کوئی شخص کسی کی ہتک کرتا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔

اس بارے میں ایف آئی اے کی طرف سے باقاعدہ آپریشن بھی شروع کیا جاچکا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق کئی افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر منظم انداز میں کمپین چلائی جارہی ہے جس کے لیے تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔

نئے سیاسی فرقے بن رہے ہیں۔ خورشید ندیم

اسکالر خورشید ندیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں پاپولزم کی ایک لہر آئی اور اس کے بعد نیا سیاسی فرقہ وجود میں آیا۔ لوگوں کے اندر ایک نئی سوچ پیدا ہوئی ہے جس میں حق اور سچ کے نام پر دوسرے کو سنے بغیر فیصلہ کن اندازمیں ایک کا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔عمران خان نے حق اور باطل کی بات کرتے ہوئے ایک واضح تقسیم پیدا کر دی ہے جو ایک نیا سیاسی فرقہ بنتا جارہا ہے۔اس سے معاشرے میں ہیجان برپا ہورہا ہے، عمران خان نے اس کلچر کو فروغ دیا ہے۔


موجودہ دور میں اس کلچر کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں کہ آوازے کسنے اور برابھلا کہنے کا نیا رواج شروع ہوچکا ہے۔ لندن میں نواز شریف کے گھر کے باہر روزانہ نعرے بازی کی گئی، لیکن اب اس پر فریق مخالف کی برداشت کم ہوتی جارہی ہے اور اب بات صرف زبانی لڑائیوں سے بڑھ کرباقاعدہ ہاتھا پائی تک پہنچ چکی ہے اور اس کا مظاہرہ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں دیکھنے میں آیا ہے۔

خورشید ندیم کا کہنا تھا کہ اس نئے سیاسی فرقہ کا وجود سامنے آچکا ہے اور اب لوگوں کو جمہوری روایات کو فروغ دینے سے ہی اسے روکنا ممکن ہو سکے گا کیونکہ اگر یہ سلسلہ بڑھتا رہا تو آپ کو گلی گلی لڑائیاں ہوتی نظر آئیں گی۔ آپ کو لوگوں کو بتانا ہوگا کہ اختلاف رائے کو کس طرح برداشت کرنا ہوگا۔ لیکن جس طرح ماضی کی حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھنا ، پھر غداروں کے ساتھ نہیں بیٹھنا۔ ایسے جملے کہہ کر نفرتوں کو فروغ دیا گیا جس سے یہ سیاسی فرقہ مزید مضبوط ہوا ہے۔

کیا تحریک انصاف صورت حال کی ذمہ دار ہے؟

سیاسی نفرتوں میں اضافہ اب اس قدر بڑھ چکا ہے کہ مختلف علاقوں میں باقاعدہ لڑائیاں بھی ہونے لگی ہیں اور خیبر پختونخواہ میں سیاسی اختلافات کے باعث باقاعدہ فائرنگ کا تبادلہ تک ہوچکا ہے۔ تیمرگرہ کی ایک مسجد پر مبینہ طورپر تحریک انصاف کے کارکنوں نے جے یو آئی کے کارکنوں پر حملہ کیا اور چار افراد کو زخمی کیا گیا۔

اس بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیریں رحمان نے الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف کی طرز سیاست کی وجہ سے ملک میں گالم گلوچ، نفرت اور انتشار بڑھ رہا ہے۔ عمران خان کے مشتعل کارکن، ان کے بقول، ملک میں ایک بہت ہی خطرناک رجحان پیدا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کارکن سوشل میڈیا اور عام زندگی میں وہی عمل کرتے ہیں جو قیادت کہتی ہے،اور اس تمام صورت حال کی ذمہ دار پارٹی قیادت ہی ہے۔

شیریں رحمان کا کہنا تھا کہ عوام کے کارکردگی متعلق سوالات سے بچنے کے لیے امریکہ مخالف بیانیہ بنایا جا رہا ہے، ماضی کی طرح صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے نیا بیانیہ بنا رہے ہیں۔

میثاق پاکستان کی ضرورت ہے۔حافظ طاہر اشرفی

حافظ طاہر اشرفی نے جو سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر بھی رہ چکے ہیں، کہا ہےاکہ یہ اختلاف اور نفرت بہت زیادہ برھ گئی ہے اور ایسے میں ایک میثاق پاکستان کی ضرورت ہے اور تمام افراد مل کر بیٹھیں کہ نئی نسل کو کیسے بچانا ہے۔ اس سلسلہ میں پاکستان کی تمام سیاسی قیادت کو سامنے آنا ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت، عسکری قیادت، عدلیہ، مذہبی قیادت مل کر بیٹھے اور اس مسئلہ کا حل سوچے کہ ان نفرتوں کو کیسے کم کرنا ہوگا۔

حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ ہم نے اس بارے میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان سے بات کی ہے ۔ پارٹی قیادت نے اس کی مذمت کی ہے۔ ایک جماعت اقتدار میں آئی ہے اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی حکومت جانی ہے اور ایک حکومت جو ابھی ختم ہوئی ہے اس کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان کے نظام کے تحت وہ واپس آسکتے ہیں۔ لہذا عدم برداشت کے مسئلے کو حل کرنا ہوگا اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کے رویے کو فروغ دینا ہوگا۔

سیاسی بے یقینی کی فضا میں پاکستانی کیا سوچ رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:14 0:00

حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ اگر حالات ایسے رہے تو آئندہ کچھ عرصہ میں انتخابات ممکن نہیں ہوں گے۔ اس وقت سیاست صرف پرو عمران اور اینٹی عمران خان ہے۔ایسے میں سیاست ہی اس کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہم نے عمران خان کو تجویز دی ہے کہ وہ اسمبلی چھوڑنے کی بجائے اسمبلی میں جاکر اپوزیشن کریں اور اپنے استعفے واپس لے لیں۔ تاہم وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں ، اس بارے میں عمران خان ہی بتا سکتے ہیں۔

درمیانہ راستہ صرف نئے الیکشن ہیں۔ شیخ رشید

سابق وزیرداخلہ شیخ رشید احمد سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ لڑائیاں اب گلی محلوں تک پہنچ گئی ہیں۔

انہوں نے کہا ا کہ پی ٹی آئی اس بارے میں کچھ نہیں کررہی۔ عمران خان نے اب تک صرف ایک ٹوئٹ کی ہے۔ابھی صرف ایک ٹوئٹ کی ہے تو لوگوں کا ایک ہجوم باہر نکل آیا ہے۔ اس وقت جو آپس میں لڑائیاں ہورہی ہیں ایسا ہونا نہیں چاہیے۔

اس کا حل کیا ہے،؟اس پر شیخ رشید کا کہنا تھا کہ اس کا درمیانی راستہ نکالنا چاہیے اور درمیانی راستہ صرف انتخابات ہیں۔ اگر انتخابات ہوجائیں تو معاملہ بہتر ہوسکتا ہے، وگرنہ ابھی تو صرف حکومت کو گئے دن ہی ہوئے ہیں۔

سیاسی قائدین ذمہ دار ہیں: احمد بلال محبوب

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ ) کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ اس معاملے میں مکمل طور پر لیڈرشپ ذمہ دار ہے کہ وہ اپنی جماعت کے کارکنوں کو کہاں اور کیسے لے کر جارہے ہیں۔

وائس آف امریکہ ست بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگوں میں شعور کی کمی ہے کہ وہ لیڈروں کی بات پر ایک دوسرے کے گریبان پکڑ رہے ہیں۔ لیکن لیڈرز کا قصور ہے کہ وہ اپنے ورکرز کو اس نہج تک لے کر جارہے ہیں کہ جہاں لیڈر کی بات کو نہ ماننے کی صورت میں ایک شخص کی پاکستانیت اور بعض اوقات مذہب تک متاثر ہونے کا ڈر ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ شخص مخالف سے بدلہ لےکر خود کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

احمد بلال محبوب نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے اس طرز سیاست میں حق و باطل کے ساتھ کفر اور غداری کے الزام بھی لگا دیے گئے ہیں جو ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔

لیکن اب اس کا ردعمل بھی آنا شروع ہوگیا ہے۔ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ایک طرف سے اگر ایسا ہوگا تو دوسری جانب سے بھی جواب آئے گا ۔ خانہ جنگی اسی طرح شروع ہوتی ہے۔ بعض لیڈروں کو شاید اندازہ نہیں کہ ان کی کہی ہوئی باتوں کا اثر کہاں تک ہوسکتا ہے اور اس سے کس قدر نقصان ہوسکتا ہے۔ انہی چاہیے کہ وہ اپنے ورکرز کو سمجھائیں کہ آپ اپنی بات کریں لیکن اختلاف کرنے والے کو دلائل سے قائل کریں تشدد سے نہیں۔


احمد بلال محبوب نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی اختلاف بہت زیادہ ہوتا ہے اور محرم میں مختلف فرقوں کے قائدین اپنے ورکرز کو سمجھاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بات کرنی ہے لیکن تشدد سے گریز کرنا ہے، اب ایسا ہی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بھی کرنا ہوگا۔

صحافی اور تجزیہ کار سبوخ سید کہتے ہیں کہ بات چیت کی فضا کم ہوتی جارہی ہے ۔گھٹن بڑھتی جا رہی ہے۔ سوال کرنے کی گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے۔ لوگ سخت بیانیے لے کر نکل رہے ہیں اور اس بات پر کیونکہ بحث نہیں ہوئی ہوتی اس لیے وہ اپنی بات پر یقین کرتے ہوئے اسی سے منسلک رہتے ہیں اور اپنی بات کو سچ سمجھتے ہوئے باقی سب کو غدار اور غلط سمجھا جاتا ہے۔

سبوخ سید نے کہا کہ اب سیاسی اختلاف اس قدر شدید ہورہے ہیں کہ آج ہی ٹیکسلا کے قریب دو دوستوں میں لڑائی ہوئی اورایک شخص نے دوسرے کو قتل کر دیا۔ یعنی اب اس تشدد کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے۔ اگرچہ اختلاف معاشرے کا حسن ہے لیکن اس پر یقین کرنے اور اپنی بات کے علاوہ دوسرے کی کسی بات کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG