پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر کرنے جا رہی ہے کہ الیکشن کمیشن نے بروقت حلقہ بندیاں نہ کر کے نااہلی کا مظاہرہ کیا۔ الیکشن کمیشن کی نااہلی کے باعث ملک میں قبل از وقت انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے۔
اس سے قبل ایک سماعت کے دوران الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ حلقہ بندیوں کےحوالے سے حکومت کو 16 خطوط تحریر کیے گئے لیکن حکومت نے اس بارے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
اس حوالے سے سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ عمران خان کے الیکشن کمیشن سے متعلق تمام تر بیانات اپنی حکومت ختم ہونے اور آئندہ کچھ دنوں میں فارن فنڈنگ کیس میں متوقع فیصلے کی وجہ سے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ممنوع فنڈنگ کیس میں جو توقعات ظاہر کی جا رہی ہیں کہ اس سے عمران خان کی سیاست داؤ پر لگ رہی ہے۔ لٰہذا وہ الیکشن کمیشن کو متنازع بنانے اور اس پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایسے الزامات عائد کر رہے ہیں۔
پاکستان میں آئینی طور پر الیکشن کمیشن کسی بھی وقت ہدایت ملنے پر 90 روز کے اندر الیکشن کرانے کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن اس بات کو مانتا بھی ہے لیکن حالیہ عرصہ میں جب حکومت کی طرف سے قبل از وقت انتخابات کرانے کی بات کی گئی تو الیکشن کمیشن نے سات ماہ کا کم سے کم عرصہ مانگ لیا۔
اتنا عرصہ مانگنے کی جو وجہ الیکشن کمیشن کی طرف سے بتائی گئی وہ یہ تھی کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں ضم کیے گئے اضلاع میں نئی حلقہ بندیاں لازم ہوگئی ہیں۔ فاٹا کی شمولیت کے بعد قومی اسمبلی کی نشستیں بھی کم ہونی ہیں۔ 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے بعد ان کی نتائج پر نئی حلقہ بندیوں کا کہا گیا لیکن مختلف جماعتوں کے اعتراضات کے باعث پرانی حلقہ بندیوں پر ہی انتخابات ہوئے تھے اور آئندہ انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیاں کرانے پر اتفاق ہوا تھا۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنوردلشاد احمد کا کہنا تھا کہ نئی حلقہ بندیاں کرانا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے حکومت کو اس بارے میں بار ہا کہا گیا کہ حلقہ بندیوں کے سلسلے میں اقدامات کیے جائیں۔ البتہ حکومت کا اس بارے میں کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت ضمنی انتخاب پرانی حلقہ بندیوں کے تحت ہوسکتے تھے ۔ جنرل الیکشن کے لیے نئی حلقہ بندیاں ہونی ضروری ہیں اور اس مقصد کے لیے نئی مردم شماری ہونا ضروری تھی۔
کنور دلشاد نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے حکومت کو متعدد خطوط لکھے جن میں انہوں نے بار بار حکومت سے مطالبہ کیا کہ آرٹیکل 51 میں جہاں ضمنی الیکشن کرانے کے لیے عارضی حلقہ بندیوں کی اجازت دی گئی ہے اسے مستقل کردیا جائے تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب مسئلہ یہ ہے کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا میں ضم ہونے کا معاملہ ہے اور وہاں موجود 12 نشستوں کو کم ہوکر چھ ہونا ہے۔ ان چھ نشستوں کا اثر پورے پاکستان کی نشستوں پر پڑسکتا ہے۔ جس کی وجہ سے اب تک یہ معاملہ زیرالتوا ہے۔ اب نئی حکومت کی تشکیل کے بعد امکان ہے کہ جلد یہ مسئلہ حل ہوگا اور نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی جس کے بعد الیکشن کمیشن 90 روز میں انتخابات کرانے کے قابل ہوگا۔
الیکشن کمیشن کے چئیرمین کے خلاف ریفرنس بھجوائے جانے سے متعلق سوال پر کنور دلشاد کا کہنا تھا کہ عمران خان اگر اس بارے میں ریفرنس بھجوانا چاہیں تو وہ بھیج سکتے ہیں اور صدر پاکستان بھی، لیکن وہاں موجود سپریم کورٹ کے ججز اس صورتِ حال سے پہلے ہی آگاہ ہیں اور وہ اس بارے میں بہتر فیصلہ کرسکیں گے۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ الیکشن کمیشن کے چیئرمین سکندرسلطان راجہ جنہیں عمران خان نے خود چیئرمین تعینات کیا ہے۔ ان کی تعیناتی کے بارے میں بھی حالیہ دنوں میں انہوں نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران انکشاف کیا ہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر تعینات کیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے اس بارے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا البتہ جنوری 2020 میں ان کی تعیناتی حکومت اور حزبِ اختلاف کی مشترکہ مشاورت سے ہوئی تھی۔ سکندر سلطان راجہ کا نام حکومت کی طرف سے پیش کیا گیا تھا اور اپوزیشن نے ان کے نام پر اتفاق کیا۔ حکومت نے اپوزیشن کے تجویز کردہ سندھ سے نثار درانی اور بلوچستان سے شاہ محمد جتوئی کو ممبر الیکشن کمیشن بنانے کی منظوری دی تھی۔
تاہم اب عمران خان نے کہا ہے کہ ان کی نامزدگی اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کی تھی ۔ اس بارے میں کنور دلشاد کہتے ہیں کہ عمران خان اس وقت اپنی زندگی میں شاید سب سے زیادہ دباؤ میں ہیں کہ جہاں ان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ توشہ خانہ کے کیسز کھل رہے ہیں۔ آئندہ کچھ دن میں ممنوع فنڈنگ کے کیس کا فیصلہ سامنے آنے والا ہے جس میں بہت زیادہ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان کی جماعت کے خلاف ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو پارٹی کا سربراہ ہونے پر تین سال تک کے لیے نااہل کیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں عمران خان اس وقت الیکشن کمیشن کو متنازع بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔تاکہ وہ کل کو اپنے کارکنوں کو بتا سکیں کہ ہم تو پہلے سے کہہ رہے تھے کہ الیکشن کمیشن متنازع ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کا یہ موقف ہے کہ وہ جلد شفاف انتخابات کرانے کے حق میں ہے تاکہ ووٹر اپنی قیادت کا انتخاب کر سکیں اور ملک آگے بڑھ سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شفافیت کے لیے وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں استعمال کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے کافی کام ہو چکا ہے۔ ان مشینوں سے ووٹنگ میں جعل سازی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی ووٹ کا حق دینا چاہتی ہے تاہم حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان مشینوں کے ذریعے نتائج کو بدلا جا سکتا ہے۔ اور یہ کہ انہیں بیرونی ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینے کے طریقہ کار پر اعتراض ہے جس سے بقول ان کے صرف ایک ہی پارٹی کو فائدہ ہو گا۔