امریکہ کی ایک سرکاری ایجنسی نے طالبان کے ہاتھوں افغان سیکیورٹی فورسز کی یک دم شکست کا الزام امریکہ کے اس فیصلے پر ڈالا ہے ، جس کے تحت افغانستان سے امریکی فوجوں کا فوری انخلا ہوا اور افغانستان پر طالبان کے قبضے کی راہ ہموار ہوئی۔
افغانستان کی تعمیر نو کے خصوصی انسپکٹر جنرل ایس آئی جی اے آر , کو ان واقعات کے بارے میں چھان بین کے لیے کہا گیا تھا۔ بدھ کو ان کی جانب سے تفتیشی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے۔ یہ پہلی ایسی امریکی رپورٹ ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکیورٹی فورسز اچانک شکست سے دوچار ہو گئیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنی فورسز اور کانٹریکٹرز کو افغانستان سے نکالنے کا ایک ایسے وقت میں فیصلہ جب کہ افغان فورسز ذمہ داریاں سنبھالنے کےقابل نہیں تھیں، تباہی کا سب سے اہم پہلو تھا ۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ افغان فورسز کی شکست کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے دو صدور نے افغانستان سے امریکی فوجوں اور کانٹریکٹرز کو ایسے وقت میں نکالنے کا فیصلہ کیا جب کہ افغان فورسز اپنے قدموں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں تھیں۔ ایس آئی جی اے آر نے امریکہ اور سابق افغان حکومت کے اہل کاروں اور فوجی لیڈروں سے انٹرویوز کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔
رپورٹ میں امریکہ کی حمایت یافتہ یکے بعد دیگرے کئی افغان حکومتوں کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے، جنہوں نے اپنی ذمّہ داریاں پوری نہیں کیں۔ایس آئی جی اے آر نے کم تنخواہوں اور ناقص لاجسٹکسس کی بھی نشان دہی کی، جس کی وجہ سے خوراک، پانی اور اسلحہ کی قلّت پیدا ہوئی۔ اسی رپورٹ میں بد عنوان کمانڈروں کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو خوراک اور ایندھن کے ناجائز کانٹریکٹ حاصل کرنے لیے جھگڑتے رہتے تھے۔
ایس آئی جی اے آر نے اپنی اس رپورٹ کو سمیٹتے ہوئے لکھا ہے کہ امریکہ اورافغانستان کی حکومتیں اس کی ذمّہ دار ہیں ، کسی جانب سے بھی ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سیاسی عزم کا اظہارنہیں ہوا۔
مختصر یہ کہ ایک موثراورپائیدار سیکیورٹی امداد کے نظام کو ابتدا سے ہی قائم نہیں کیا جاسکا اور اس سلسلے میں امریکی اورافغان کوششیں ناکام رہیں۔ اس پرآخری مہر امریکی فوج کے تیزی سے انخلا کے بارے میں فروری 2020 کے فیصلے نےثبت کر دی۔