رسائی کے لنکس

پاکستانی فوج کا آرمی چیف کی توہین کے الزام میں ایمان مزاری پر مقدمہ


پاکستان کی فوج نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف توہین آمیز بیان کے الزام پر انسانی حقوق کی وکیل اور سابق وزیرِ برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا ہے۔

ایمان زینب مزاری نے اس مقدمہ میں عبوری ضمانت حاصل کر لی ہے۔ ایمان زینب مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ کا کہنا تھا کہ جس خاتون کی والدہ کو غائب کردیا گیا ہو اس کے الفاظ کو بنیاد بنا کر مقدمہ درج کرانا ناانصافی ہے۔

اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں درج ہونے والا مقدمہ پاکستان فوج کی جیگ برانچ کے لیفٹننٹ کرنل سید ہمایوں افتخار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ درخواست میں موقف اختیارکیا گیا ہے کہ 21 مئی کو شام 5 سے 6 بجے کے درمیان اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایمان مزاری نے پاکستانی فوج اور اس کی سینئر قیادت (چیف آف آرمی سٹاف) کے خلاف توہین آمیز کلمات ادا کیےتھے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ایمان مزاری کی طرف سے آرمی قیادت کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا تھا جس کا مقصد فوج کو اشتعال دلانا تھا۔یہ اقدام فوج کے اندر نفرت انگیزی کا باعث بن سکتا تھا جو ایک سنگین جرم ہے۔ ایمان مزاری کا بیان فوج کے افسران اور جوانوں کو حکم عدولی پر اکسانے کے مترادف ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ فوج اور اس کے سربراہ کی کردار کشی سے عوام میں خوف پیدا کرنا ریاست کے خلاف جرم ہے۔ لہذا متعلقہ قوانین کے تحت ایمان مزاری کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

ایمان مزاری پر ایف آئی آر 138/505 کی دفعات کے تحت درج کی گئی ہے اور ضمیرالحسن اے ایس آئی نے یہ مقدمہ درج کیا ہے۔

ایمان مزاری۔
ایمان مزاری۔

عبوری ضمانت منظور

اس کیس سے متعلق ایف آئی آر سامنے آنے کے بعد ایمان زینب مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ ایڈوکیٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت دائر کی جہاں سے 9 جون تک ان کی عبوری ضمانت منظور کرلی گئی ہے۔درخواست کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی تھی۔

ایمان زینب مزاری کی وکیل زینب جنجوعہ ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک خاتون جس کی والدہ کو غائب کردیا گیا ہو ان کے الفاظ کو ایک مقدمہ کے لیے استعمال کرنا درست نہیں ۔ جس وقت یہ واقعہ ہوا ایمان زینب مزاری کو اپنی والدہ کے لاپتا ہونے کے خدشات تھےاور اب اس واقعے کی بھی عدالتی تحقیقات ہورہی ہیں اور اس میں دیکھا جائے گا کہ ان کے یہ خدشات درست تھے یا نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کے پس منظر کی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایف آئی آر کے الزامات بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

ایمان مزاری پر درج کی گئی ایف آئی آر پر سوشل میڈیا میں بھی تنقید کی جارہی ہے۔ سینئر صحافی حامد میر نے ایف آئی آر کی کاپی ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ عجیب اتفاق ہے کہ اسی تھانے میں میرے خلاف بھی 2017 میں ایک ایسے وقوعے کی ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ جو ایف آئی آر درج ہونے سے سات سال قبل اسلام آباد سے سینکڑوں کلو میٹر دور پیش آیا تھا اور اس وقت تھانہ رمنا کا وجود بھی نہیں تھا۔

سابق وفاقی وزیر اور تحریکِ انصاف کی رہنما شیریں مزاری کو اینٹی کرپشن نے 21 مئی کو اسلام آباد میں گرفتار کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد ان کی بیٹی ایمان مزاری نے اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے پاکستانی فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا براہ راست نام لے کر ان پر اپنی والدہ کو اغوا کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

تاہم حکومت نے ان الزامات کی تردید کی اور بعد ازاں شیریں مزاری کو رہا کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔ اسی شام اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت میں عدالت نے شیریں مزاری کو رہا کرکے جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جب کہ شیریں مزاری نے اپنے اغوا کا الزام وزیرِاعظم شہباز شریف اور وزیرِداخلہ رانا ثناء اللہ پر عائد کیا تھا۔

حکومت کے مطابق شیریں مزاری کو برسوں پرانے زمین کے کاغذات میں ردوبدل کے الزام میں درج ایف آئی آر میں گرفتار کیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG