ہمارے یہاں بچہ پیدا کرنا عورت کی سب سے بڑی اچیونمنٹ سمجھی جاتی ہے، یہ کہنا ہے یسریٰ سلیم کا جن کی شادی کو چار برس ہوچکے ہیں لیکن ابھی وہ ماں نہیں بنیں۔
وہ کہتی ہیں،"ہمارے معاشرے میں شادی اور بچہ پیدا کرنا لوگوں کی کامیابی ہے، ہر بندے کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں زندگی میں بہت سے لوگوں کی ترجیح اولاد ہو گی اچھی بات ہے لیکن بعض کی کچھ اور بھی ترجیحات ہیں۔ میرا ماسٹرز کرنا، میرا گولڈ میڈل لے لینا یا ایوارڈ لے لینا لوگ اسے کامیابی نہیں سمجھتے لوگ بچہ پیدا کرنے کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں۔"
یسریٰ کا کہنا ہے کہ شادی کے کچھ ہی ماہ بعد لوگوں نے ان سے پوچھنا شروع کردیا تھا کہ وہ کب خوش خبری دے رہی ہیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے معالجین سے بھی رجوع کیا۔ لیکن پھر انھیں اندازہ ہوا کہ اگر فوری طور پر ان کے یہاں اولاد نہیں ہوتی تو وہ اپنی زندگی کو اس کے بغیر بھی نارمل انداز سے گزار سکتی ہیں۔
"ارے شادی کو اتنے برس ہوگئے بچے نہیں ہیں حیرت ہے؟ کیا ہمارے بیٹے کا کوئی وارث ہوگا بھی یا نہیں؟ شرم کرو میرے تو چار بچے ہیں تم ابھی تک ہنی مون پیریڈ منارہی ہو۔ ہمارے یہاں تو شادی کو سال بعد میں پورا ہوتا تھا بچہ پہلے گو دمیں ہوتا تھا نہ جانے آج کل کی لڑکیوں کو کیا ہوا ہے؟ میں کسی اچھے ڈاکٹر کا پتہ دے دوں؟ سنو ایک بچہ پیدا کرلو ورنہ تمہارے شوہر کو کمی نہیں ہوگی عورتوں کی۔" وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ وہ جملے ہیں جو بے اولادجوڑوں کو عام سننے پڑتے ہیں۔
ان جوڑوں کے یہاں اولاد نہ ہونے کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، وہ طبی مسائل بھی ہوسکتے ہیں اور اپنی خواہش بھی لیکن اردگرد بسنے والے لوگ کسی بھی لڑکی کی اپنے سسرال اور شوہر کے گھر میں پاؤں جمانے کی ضمانت اولاد کو قرار دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ جتانے والے افراد کسی موقع، محفل، مقام کا لحاظ کئے بنا ایسا ذاتی سوال کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہ افراد آپ کے قریبی رشتے دار، دوست احباب، کولیگز اور بعض اوقات اجنبی بھی ہوسکتے ہیں ۔ جس سے بہرحال تکلیف اور ذہنی اذیت اس جوڑے کو ہی سہنی پڑتی ہے جو اولاد کے بغیر بھی اپنی زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔
لوگوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کیسے کوئی بچے کے بنا خوش و خرم اور مطمئن زندگی گزار رہا ہے سو وہ اس کمی کا احساس دلانے کے لئے کبھی بھی کہیں بھی مفت مشورہ یا طنز جسے وہ فکر کہتے ہیں پیش کرنے میں تاخیر نہیں کرتے۔ وائس آف امریکہ نے کچھ ایسے جوڑوں سے خصوصی بات کی اور جانا کہ انھیں کیسے روئیے اور سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
" میرے باس نے مجھ سے دو تین بار ایسے پوچھا کہ تم کوشش کیوں نہیں کرتی ہو؟ تمہارے بچے کیوں نہیں ہورہے ہیں؟ یہ سن کر میں شاک ہوگئی۔" یہ نازش ایاز ہیں جن کی شادی کو تقریبا دس برس ہونے والے ہیں۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ اچھی زندگی گزار رہی ہیں لیکن یہ سوال ان کا ہر جگہ پیچھا کرتا رہتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئےنازش نے کہا،" پہلے تو ایسا تھا کہ یہ سوال سن کر میرے کانوں سے دھواں نکلنے لگتا تھا اور میں سوچتی تھی کہ لوگ کیسے ایسا سوال کرسکتے ہیں اب میں نے دو سالوں سے خود کو اتنا مضبوط کیا کہ مجھے اب ایسے لوگوں کو جواب دینا آگیا ہے۔ ورنہ میرا یہ حال تھا کہ جب میری شادی ہوئی اور کچھ ہی ماہ بعد مجھ سے سوالات شروع ہوئے تو مجھ پر اتنا دباو آگیا کہ ہر ماہواری کے شروع ہونے پر میں رونے لگ جاتی اور اپنے شوہر بہزاد کو کہتی کہ اس بار بھی میں ناکام ہوں۔ میرے ذہن میں بیٹھ چکا تھا کہ عورت ہونے کے ناطے میرا کام صرف اور صرف بچے پیدا کرنا ہے اور اگر میں یہ نہیں کر پارہی تو میں نامکمل ہوں۔ میں ڈپریشن میں رہنے لگی پھر ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اب جاب پھر سے شروع کرنی چاہئیے تاکہ میں ان سوالات سے بچ سکوں لیکن دس سال ہوگئے کہیں نہ کہیں یہ سوالات پیچھا کرتے ضرور ہیں۔"
خالد اور آمنہ کی شادی کو سات برس ہوگئے ہیں لیکن آمنہ کو کبھی بھی اپنی ساس یا سسرال سے اولاد نہ ہونے پر کچھ ایسا نہیں سننے کو ملا جو ا ن کی تکلیف میں اضافہ کرے۔ اسی بات کے سبب ان میں نا امیدی پیدا نہیں ہوئی۔ آمنہ کے مطابق، "میرے اردگرد ایسے افراد تھے جو مثبت سوچ کے حامل تھے انھوں نے مجھے کہا کہ انتظار کرو کیونکہ ہمارے یہاں خواتین معالجین کے پاس فوراً جاتی ہیں اور پھر و ہ مختلف دوائیں لیکر اپنے ساتھ جو تجربات شروع کردیتی ہیں وہ میں نے نہیں کئے کیونکہ میرے شوہر بھی کہتے ہیں کہ آپ ہیں تو سب کچھ ہے تو سب سے پہلے اپنا خیال رکھنا ہے یہ نہیں کہ جو لوگ کہیں یا ڈاکٹر وہ سب کچھ کرو۔ ہر انسان کے بس میں کوشش کرنا ہی ہے تو میں نے بھی کوشش کی لیکن اندھا دھند میں اس خوشی کے پیچھے بھاگی نہیں ہوں۔"
لوگ کیا باتیں کرتے ہیں؟
یسریٰ کہتی ہیں، "صرف میں نہیں میرے شوہر سے بھی اکثر ان کے دوست عجیب و غریب سوالات پوچھتے ہیں کہ ابھی تک بچہ کیوں نہیں ہوا؟ اور پھر ان سولات کے بعد انھوں نے اگلے سوال پر آنا ہوتا ہے جو مجھ سے متعلق ہو کہ کیا بھابی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے ظاہر ہے انھیں یہ پسند نہیں کہ کوئی ان کی بیوی سے متعلق یا اسکی بیماری سے متعلق کوئی بھی بات کرے تو وہ پہلے ہی شٹ اپ کال دے دیتے ہیں۔ جب میں انھیں کہوں کہ مجھ سے سوالات ہورہے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہہ دو کہ مسئلہ مجھ میں ہے میں نہیں چاہتا کہ اولاد ہو۔ "
یسریٰ مزید کہتی ہیں،" میرے شوہر کی نوکری ایسی ہے کہ ان کا اکثر کام کے سلسلے میں ملک سے یا شہر سے باہر جانا ہوتا ہے۔یہاں تک کہ بہت سے لوگوں نے یہ تک بھی کہا کہ تمہارے شوہر کی تم میں دلچسپی ختم ہوتی جارہی ہے کیونکہ تم نے اولاد نہیں دی اور اسی لیے وہ ایسے ٹرپس پر رہتا ہے۔"
یسریٰ کہتی ہیں،" مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم دونوں کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ان جیسے لوگ ایک ایسی چیز میرے ذہن میں ڈال رہے ہیں جو کہ سرے سے ہے ہی نہیں لیکن بار بار جب کہا جائے تو میں ایسا سوچنا شروع کردوں گی کہ ہاں یہ وجہ ہوسکتی ہے جو کہ نہیں ہے۔"
نازش نے خوش مزاجی سے کہا،" مجھے بچے بہت پسند ہیں تو بہن کے ہوں یا کسی کے بھی میں انھیں گود میں لیکر پیار ضرور کرتی ہوں ایسے میں اکثر لوگ مجھے بیچارگی کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ ہاں اللہ تمہیں بھی دے دے۔ اگر میں کسی کے بچے کو پیار کر رہی ہوں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں بیچاری ہوگئی۔"
بہزاد نے جہاں اپنی اہلیہ نازش کو تنگ کرنے والے سوالات اور ان سے پیدا ہونے والے ذہنی دباو کو کم کرنے میں ہمیشہ مدد دی وہیں انھوں نے بتایا کہ یہ مسئلہ صرف عورتوں کا نہیں مردوں کا بھی ہے ایسا سوچنا کہ صرف عورتیں ہی ایسا ذاتی سوال کرسکتی ہں غلط ہے۔ بہزاد نے بتایا،" میرے اکثر دوست احباب اپنے بچوں کو میرے سامنے لاکر جتا کر بتاتے کہ یہ دیکھو کتنا بڑا ہوگیا شادی کے ایک سال بعد ہی پیدا ہوگیا تھا۔۔۔ میں اس بات میں چھپے طنز کو سمجھ لیتا ہوں۔ یا کہا جاتا ہے کہ فلاں حکیم کے پاس چلے جاؤ وہاں مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ لوگ آپ کی زندگی کی کسی محرومی کو جتانے کے لئے ہر وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔"
احسن خالد بھی ایسی ہی باتیں سن چکے ہیں اور ان سے کافی نالاں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ان کے مطابق،" مرد اکثر نیم حکیم کے ساتھ ساتھ دم دھاگے والے باباؤں کا بھی پتہ بتاتے ہیں کہ یہ بے اولادی کا مسئلہ ایسے حل ہوجائے گا ۔ ایسے میرے حلقہ احبا ب میں کافی لوگ ہیں میں سمجھتا ہوں ایسے افراد سے دور رہنا ہی زیادہ بہتر ہے۔"
کیا ایسی باتیں ذہنی دباو میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں؟
"بی بی تمہاری تو عمر نکل گئی ہے تم نے اگر بچہ پیدا نہیں کیا تو اس کو تو لڑکی مل جائے گی یہ تو دوسری شادی کر لے گا اس کو تو سولہ سال کی لڑکی بھی مل جائے گی، تم اپنی فکر کرو تمہیں ہی بچہ پیدا کرنا ہے۔" یہ ایک ایسے ڈاکٹر کے الفاظ تھے جن کے پاس نازش اپنے شوہر کے ہمراہ علاج کے لئے گئی تھیں۔
نازش کہتی ہیں۔" ہمیں کسی نے اس ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیا کیونکہ وہ کافی کامیاب اور نامور معالج ہیں لیکن جب انھوں نے مجھ سے ایسی باتیں کیں تو میں انھیں کوئی جواب نہ دے سکی۔ جب دوسری بار گئی پھر ایسی باتیں سنیں تیسری بار میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ میں اس ڈاکٹر کے پاس نہیں جارہی۔ اس نے مجھے کیا سمجھا ہے کہ میں کوئی بے یارو مددگار عورت ہوں جسے اس کا شوہر بچے نہ ہونے پر چھوڑ دے گا۔ مجھے ایسا لگنے لگا تھا کہ یہ ڈاکٹر مجھے اتنا ڈیپریسڈ کر دے گا کہ شاید میں کوئی فیصلہ کرلوں اور شوہر کو چھوڑ دوں۔"
یسریٰ نے بتایا کہ ان کی شادی کو دو برس ہوئے تھے اور ان کی اولاد نہیں تھی۔اچانک ان کے دادا کا انتقال ہوا۔ وہ کہتی ہیں گھر میں لوگ موجود تھے کہ ان کی کزن نے اپنا بچہ ان کی گود میں دیا اور کسی کام میں لگ گئیں جس پر ایک خاتون نے یسریٰ کو مخاطب کر کے کہا،" اگر تم بچہ پیدا کر لیتیں تو تمہارے داد ا دیکھ کر مر جاتے"۔ وہ کہتی ہیں ،"ان کی یہ بات سن کر مجھے بہت افسوس ہوا کہ میرے دادا کی موت کو دو دن ہوئے ہیں اور آپ مجھ سے ایسی بات کر رہی ہیں۔ آپ کو لگتا ہوگا کہ یہ میرے لئے فکر مندی کی بات ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔" یسریٰ کہتی ہیں،" میں نے انھیں غصے میں جواب دیا کہ پھر تو مجھے بیس سال پہلے شادی کر لینی چائیے تھی دادی بھی دیکھ کر مر جاتیں۔ میری امی نے مجھے بہت ڈانٹا کہ تم نے ایسے جواب کیوں دیا؟ میں نے کہا آپ لوگوں کے روئیے اور باتیں دیکھیں کہ وہ کوئی موقع نہیں چھوڑتے بے حسی دکھانے کا۔ ایسی باتیں آپ کو کبھی کبھی بہت تکلیف دیتی ہیں۔"
کیا اولاد کے بنا زندگی نہیں گزر سکتی؟
بہزاد کے مطابق،" ہم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ اگر ہماری اولاد نہ ہوئی تو ہم کوئی بچہ گود لے لیں گے اس بات پر کہ بچہ نہیں ہے اور میں اس پر اپنی بیوی کو چھوڑ دوں اس کا تو سوال ہی نہیں ہے ہماری زندگی ایک دوسرے کے ساتھ مکمل ہے۔ یہ سوچ سوچ کر کہ ہماری اولاد نہیں ہے۔۔۔ کیوں نہیں ہے۔۔ لوگ کیا سوچتے ہیں ۔۔اس سب کو اگر ہم خود پر طاری کرلیں تو اپنی زندگی مشکل بنالیں گے۔"
آمنہ کا کہنا ہے اگر زندگی میں کوئی بھی کمی بیشی ہے چاہے وہ معاشی ہو یا اولاد کے حوالے سے تو ایک دوسرے پر الزام نہ دیں کہ تمہاری وجہ سے اولاد نہیں ہوئی ہے یا مسائل ہیں۔ یہ کوئی جنگ نہیں ہے۔ پارٹنرز جب ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں تو بہت سے مسائل حل ہوجاتے ہیں پھر چاہےکیسی بھی کمی ہو آپ کو محسوس نہیں ہوتی۔
یسریٰ کے مطابق اولاد کا زندگی میں ہونا اہم ہے کیونکہ آج ہم اپنے والدین کا سہارا ہیں کل کوئی ہمارا سہارا ہوگا لیکن وہ ابھی کیوں نہیں ہے۔ اس کا سوچ کر اپنے آج کو ختم کرنا اور ناشکری کرنا ٹھیک نہیں۔ خدا کسی کو بہت دیتا ہے کسی کو کم ۔ یہ سمجھ لینا بہت ضروری ہے کہ جو خدا نے ہمیں دے رکھا ہے ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہئیے اور اسی سے اچھی امید بھی رکھنی چاہئیے۔