رسائی کے لنکس

یورپ کا تیل سے چلنے والی گاڑیوں کی فروخت 2035 تک ختم کرنے کا فیصلہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

یورپی یونین نے 2035 تک یورپی اتحاد میں شامل ممالک میں تیل سے چلنے والی گاڑیوں کی فروخت ختم کرنے کے ایک منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔

یورپ کے 27 ملکوں نے یہ ہدف مقرر کیا ہے کہ 2035 تک تمام ملکوں میں صرف الیکٹرک گاڑیاں فروخت ہوں گی۔اس منصوبے کا مقصد آب ہوا کے تحفظ کے لیے سال 2050 تک کاربن کے اخراج کو صفر کرنے کے ہدف کا حصول ہے۔

کمبسشن انجن یعنی پیٹرول اور ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی فروخت ختم کرنے کا منصوبہ ابتدائی طور پر جولائی 2021 میں پیش کیا گیا تھا۔ اس منصوبے میں یہ تجویز شامل ہے کہ یورپ بھر میں استعمال ہونے والی کاروں کے ساتھ ساتھ کم باربرداری کے لیے استعمال ہونے والی کمرشل گاڑیوں کے انجن کو مکمل طور پر الیکٹرک میں تبدیل کر دیا جائے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق جرمنی اور اٹلی سمیت دیگر ممالک کی درخواست پر یورپی یونین نے مستقبل میں آب و ہوا متاثر نہ کرنے والی ٹیکنالوجی استعمال کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے جس میں سینتھیٹک فیول اور چارج ہونے والی ہائبرڈ ٹیکنالوجی شامل ہے۔

لکسمبرگ میں یورپی ممالک کے وزراتی اجلاس میں مخصوص اقسام کی گاڑیاں یا 10 ہزار سالانہ سے کم گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے لیے کاربن کے اخراج سے متعلق پانچ سال کی توسیع کی بھی منظوری دی ہے۔

’اے ایف پی‘ کے مطابق منگل کو وزرائے خارجہ کے اجلاس میں دی گئی اس منظوری کو 'فراری ترمیم' کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ 'فراری' دنیا کی مہنگی اور پر تعیش ترین کاریں بنانے کے لیے مشہور ہے۔ مبصرین کے مطابق وزرائے خارجہ کے اجلاس میں پانچ سال تک کاربن کے اخراج میں رعایت کی منظوری دنیا کی مہنگی گاڑیاں بنانے والے برانڈز کو فائدہ دینے کے لیے دی گئی ہے۔

اب ان اقدامات پر یورپین پارلیمان کے ارکان سے لازمی مذاکرات کیے جائیں گے۔

وزراتی اجلاس کی صدارت کرنے والی فرانس کی وزیرِ برائے متبادل توانائی ایگنس پینیئر رناشر کا کہنا تھا کہ یہ ہماری گاڑیاں بنانے کی صنعت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے لیکن اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے تاکہ امریکہ اور چین سے مسابقت ممکن ہو سکے۔

واضح رہے کہ امریکہ اور چین الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات میں مصروف ہیں۔

ایگنس پینئر کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے حالیہ فیصلے سے منصوبہ بندی کے ساتھ متبادل توانائی کی جانب جانے کا ہدف حاصل کیا جا سکے گا۔

یورپ کی آٹو موبائل انڈسٹری پہلے ہی الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری میں مصروف ہے البتہ اس کے ساتھ ایک خوف بھی موجود ہے کہ زیادہ تیزی سے تبدیلی کے معاشرے پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔

یورپی کمیشن کے 'یورپ گرین ڈیل' کے انچارج فرانز ٹیممنز نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ گاڑیاں بنانے والی بیشتر کمپنیوں نے الیکٹرک گاڑیاں بنانے کا انتخاب کیا ہے۔ البتہ یورپی یونین دیگر ماحول دوست ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے تیار ہے۔ اس میں سینتھیٹک فیول شامل ہے جسے 'ای-فیول' کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے غیر جانب دار ہےاور اصل ہدف ایسی گاڑیاں بنانا ہے جن سے کاربن کا اخراج بالکل نہ ہوتا ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا کہ 'ای-فیول' مکمل حل ہے البتہ مستقبل میں اگر گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں اس کے استعمال کے حوالے سے درست ثابت ہوئیں تو یورپی یونین اس وقت اس حوالے سے فیصلہ کر سکتی ہے۔

واضح رہے کہ سینتھیٹک فیول کے حوالے سے اس وقت تحقیق جاری ہے۔ یہ فیول صنعتی سرگرمیوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ سے حاصل کیا جاتا ہے جس سے کم کاربن کے اخراج کے ساتھ بجلی کی پیداوار ممکن ہوتی ہے۔

کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اقدامات سے تیل کی صنعت کو خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے کیوں کہ اس وقت تیل سے ہی کمبسشن انجن چلائے جا رہے ہیں۔ جہاں مستقبل میں گاڑیوں کو مکمل طور پر الیکٹرک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے وہیں آٹو موبائل انڈسٹری کو سینتھیٹک فیول گاڑیاں چلانے کے لیے ایک بہتر متبادل بھی نظر آ رہا ہے۔

البتہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے اس فیول کے استعمال کی مخالفت کی جا رہی ہے کیوں کہ ایک تو اس کی لاگت بہت زیادہ ہوگی دوسرا اس کا استعمال بھی زیادہ کرنا پڑے گا۔

یورپ میں لوگ سفر کے لیے زیادہ تر کاروں کا استعمال کرتے ہیں جہاں کاروں کے ذریعے کاربن کا اخراج 15 فی صد ہے۔

یورپ کی گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں الیکٹرک گاڑیوں کی 100 فی صد طلب نہ ہونے پر بھی خدشات کا شکار ہے۔ اس لیے یورپین کمیشن نے الیکٹرک گاڑیوں کی چارجنگ کے لیے بڑے پیمانے پر چارجنگ اسٹیشنز بنانے کی سفارش کی ہے۔

یورپی کمیشن کی صدر ارسلہ وینڈرلین نے گزشتہ برس کہا تھا کہ یورپ میں مرکزی شاہراہوں کے ساتھ ہر 60 کلومیٹر کے بعد لازمی طور پر چارجنگ پوائنٹ ہونا چاہیے۔

الیکٹرک گاڑیاں بنانے میں مصروف کمپنیاں بھی یہی شکایت کرتی نظر آتی ہیں کہ ایسا انفرااسٹرکچر نہیں ہے جس میں الیکٹرک گاڑیوں کی ضروریات پوری ہوں۔

XS
SM
MD
LG