پاکستان میں نامعلوم مسلح افراد نے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران دو صحافیوں کو ہلاک کر دیا، ایک معروف کالم نگار کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ پولیس نے ایک رپورٹر، ٹاک شو کے میزبان اور یو ٹیوب پر سیاسی شو کے میزبان کو ایسے میں گرفتار کیا ہے جب حکومت کو اپنے سیاسی مخالفین کی پکڑ دھکڑ کے الزامات کا سامنا ہے۔
یہ حملے یکم جولائی سے شروع ہوئے جب سندھ کے خیر پور ضلع میں مقامی رپورٹر اشتیاق سودھاڑو کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ مقتول صحافی سندھی زبان میں شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ کے ساتھ وابستہ تھے۔ ان کی بیوہ نے الزام عائد کیا ہے کہ علاقے کے ایک پولیس افسر نے ان کے شوہر پر مہلک حملے کا حکم دیا تھا۔
اس کے ایک دن بعد اردو کے روزنامے ایکسپریس سے وابستہ افتخار احمد کو خیبرپختونخوا میں نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کر کے اس وقت ہلاک کر دیا جب وہ کام سے واپس گھر جا رہے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ افتخار کی ہلاکت کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں اور اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ ان کی کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی تو نہیں تھی۔
صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے ان ہلاکتوں کی مذمت کی ہے اور پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ملک کے آئین اور بین الاقوامی معاہدوں کے تحت پریس کی آزادی کو تحفظ فراہم کریں۔
آئی ایف جے نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کی حکومت کو صحافیوں کے تحفظ کو یقنینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کرنے چاہیئیں جیسا کہ قانون اس کا تقاضا کرتا ہے اور صحافیوں پر حملے روکے جائیں تاکہ وہ کسی خوف کے بغیر اپنا کام کر سکیں۔
گزشتہ جمعے کو پاکستان کے شہر لاہور میں سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار ایاز امیر پر نقاب پوش افراد نے حملہ کیا۔ وہ اپنے پرائم ٹائم ٹی وی شو کے بعد گھر جا رہے تھے جب ان کو روکا گیا۔
72 سالہ ملکی سطح پر معروف صحافی نے رپورٹروں کو بتایا کہ حملہ آووروں نے ان کے دفتر کے نزدیک ان کو ایک مصروف سڑک پر روکا، ان کے چہرے پر مکے برسائے اور گاڑی سے کھینچ کر باہر نکالا۔
ایاز امیر نے بتایا تھا کہ حملہ آوروں نے ان کے کپڑے بھی پھاڑ دیے اور ان کا اور ان کے ڈرائیور کا سیل فون بھی ساتھ لے گئے۔
اس حملے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی۔
ایاز امیر نے اس حملے سے ایک روز قبل دارلحکومت اسلام آباد میں وکلا کی تنظیم کی طرف سے منعقدہ ایک سیمینار میں تقریر کی تھی جس میں وزیراعظم شہباز شریف اور ملک کی طاقتور فوج کے سیاست میں کردار پر سخت تنقید کی تھی۔ سابق وزیراعظم عمران خان بھی اس سیمینار میں موجود تھے۔
ایاز امیر پر حملے کی وزیراعظم شہباز شریف نے بھی مذمت کی۔ حکومت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ شہباز شریف اس حملے کی مذمت کر تے ہیں اور انہوں نے پنجاب میں حکام کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔
ایک الگ واقعے میں پنجاب پولیس نے منگل کو دیر گئے ایک مشہور ٹی وی اینکر عمران ریاض خان کو اسلام آباد کے نواح سے گرفتار کر لیا۔ ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج ہے۔
گرفتار صحافی ، جن کے یوٹیوب چینل پر تیس لاکھ سے زیادہ فالوور ہیں، پاکستان کی سیاست میں فوج کے کردار پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے عمران ریاض خان کی گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ پاکستان فاشزم کی طرف جا رہا ہے۔ عمران خان کی تقریبا چار سالہ حکومت ان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی کامیابی کے نتیجے میں ختم ہو چکی ہے وہ امریکہ پر الزام عائد کرتے ہیں کہ انہیں ایک سازش کے تحت ہٹایا گیا۔ اور اس حکومتی تبدیلی میں مقامی سیاستدانوں کے ساتھ مل کر سازش کی گئی۔ امریکہ بار ہا ان الزامات کی تردید کر چکا ہے۔
پاکستان کی فوج بھی ملکی سیاست میں کسی طرح کی دخل اندازی سے انکار کرتی ہے۔ شہباز شریف کی حکومت بھی ان الزامات کو مسترد کرتی ہے کہ وہ میڈیا کی آزادی کے خلاف کاروائیاں کر رہی ہے۔
تاہم پاکستان کی پولیس نے حالیہ دنوں میں متعدد صحافیوں اور سیاسی ٹاک شوز کے میزبانوں کے خلاف مقدمات قائم کیے ہیں کہ وہ حکومت اور فوج پر سخت تنقید کرتے ہیں۔
پاکستان صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ تاہم نقادوں کا کہنا ہے کہ کبھی بھی ایک ہفتے کے اندر اتنے صحافیوں کو متشدد حملوں یا مقدمات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
تازہ ترین ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق پاکستان 180 ممالک کی فہرست میں 145 ویں نمبر پرہے۔