رسائی کے لنکس

کووڈ کا وائرس ایک عرصے تک پیٹ میں رہ سکتا ہے، نئی تحقیق


فائل (رائٹرز)
فائل (رائٹرز)

کووڈ نائنٹین کے مریضوں کے فضلے میں انفیکشن کے مہینوں بعد تک اس بیماری کا سبب بننے والا وائرس موجود رہ سکتا ہے۔ یہ بات اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے تحت ، کرونا وائرس کے مریضوں کے فضلے میں وائرس پائے جانے سے متعلق کیے گئے اب تک کے سب سے بڑے مطالعے میں سامنے آئی ہے۔

کووڈ نائنٹین سے صحت یاب ہونےکے بعد بھی بہت سے لوگ ایک لمبے عرصے تک تھکاوٹ، پٹھوں میں کمزوری، اور بے خوابی جیسی علامات کی وجہ سے پہلے کی طرح نارمل نہیں محسوس کرتے۔ اگر یہ علامات پوری شدت کے ساتھ 12 ہفتوں سے زیادہ رہیں تو ماہرین اسے لانگ کووڈ یا پوسٹ ایکیوٹ کووڈ سنڈروم بھی کہتے ہے۔

مریضوں کے اسٹول یا پاخانے میں COVID-19 کےوائرس کے آر این اے کو ٹریک کرنے والی یہ سٹڈی لونگ کووڈ سے متعلق ہمیں سراغ دیتی ہے۔ آر این اے کے ذریعے وائرس اپنے اندر تبدیلی لانے کے لیےپیغام رسانی کرتا ہے۔ محققین نے دیکھا کہ COVID-19 کے تقریباً نصف مریضوں میں تشخیص کے ہفتے بھر بعد ان کے پاخانے میں وائرس کے ذرات پائے گئے اور یہ ذرات چار فیصد مریضوں کے فضلے میں سات ماہ بعد بھی موجود تھے۔ تو ایسے مریض جن کے ٹھیک ہونے کے باوجود ان کے اسٹول میں وائرس موجودتھے، ان میں پیٹ کی بیماریوں کی علامات جیسے پیٹ میں درد، متلی اورالٹیاں وغیرہ زیادہ دیکھی گئیں۔

ماہرین نے دیکھا کہ معدے کے مسلسل انفیکشن کے علاوہ، کووڈ نائنٹین کا سبب بننے والا وائرس SARS-CoV-2 جسم کے ان حصوں میں بھی رہ سکتا ہے جوعمومی طور پر ہمارے مدافعتی نظام سے محفوظ رہتے ہیں جیسے آنکھیں،دل یا دماغ جیسے اعضاء۔

خواتین اور بچوں کی صحت پر کرونا وائرس کے اثرات
خواتین اور بچوں کی صحت پر کرونا وائرس کے اثرات

ایک اور مطالعے کے محققین کی ٹیم نے 44 افراد کے پوسٹ مارٹم سے جمع کیے گئے نمونوں کا مطالعہ کیا تو ان میں COVID-19 کی تشخیص ہوئی۔ اور دل، آنکھوں اور دماغ، سمیت کئی اعضاٗ میں وائرس کے شواہد ملے۔ انفیکشن کے 230 دن تک وائرس کا اسپائیک پروٹین پایا گیا۔یہ مطالعہ ابھی دیگر ماہرین کی جانب سے تجزیے کا منتظر ہے۔

لیکن ایک اورمحدود مطالعے کے نتائج بھی طویل کووڈ کے مریضوں میں انفیکشن ختم ہونے کے مہینوں بعد بھی وائرس کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس مطالعے میں پینسٹھ فیصد مریضوں کے خون میں Sars-CoV-2 کا اسپائک پروٹین پہلی تشخیص کے 12 ماہ بعد تک بھی پایا گیا۔ یہ نتائج ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ڈاکٹر ڈیوڈ والٹرکی جانب سے کیے گئے مطالعے کے ہیں۔اس مطالعے نے اس امر کی تائید کی کہ وہ مریض جن میں کووڈ سے صحتیاب ہونے کے بعد مرض کی علامات نہیں تھیں انکے خون میں SARS-CoV-2 کا اسپائیک پروٹین بھی نہیں پایا گیا۔

Sars-CoV-2 کا اسپائک پروٹین کرونا وائرس کو میزبان خلیوں میں داخل ہونے اور انفیکشن کا سبب بنتا ہے۔

خیال یہ پایا جاتا ہے کہ لونگ کووڈ اگر وائرس کی موجودگی کا مرہون منت ہے تو اس کے لیے اینٹی وائرل تھراپی تخلیق کی جاسکتی ہے۔ لیکن کوئین میری یونیورسٹی آف لنڈن کے ساتھ وابستہ وائرولوجسٹ، ڈاکٹر دیپتی گرداسانی کہتی ہیں کہ علاج کے طور پر اینٹی وائرل تھراپی بنانا شاید عملی طور پر ممکن نہ ہو۔ ان کے مطابق یہ اتنا آسان اس لیے نہیں کیونکہ وائرس مسلسل شکل تبدیل کرتا رہتا ہے اور یوں اس کا بچ نکلنے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ماہرین کہہ رہے ہیں کہ لونگ کووڈ کی دیگر علامات کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور یہ مطالعے بھی اسی کی ایک کڑی ہیں۔

XS
SM
MD
LG