رسائی کے لنکس

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟


جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک مظاہرے میں شریک خواتین نےاپنے لاپتا ہونے والے اہل خانہ کی تصاویر اٹھا رکھی ہیں۔(فائل فوٹو)
جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک مظاہرے میں شریک خواتین نےاپنے لاپتا ہونے والے اہل خانہ کی تصاویر اٹھا رکھی ہیں۔(فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ایک بار پھر لوگوں کی جبری گمشدگیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا موقف ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران جو لوگ لاپتا ہوئے ہیں ان میں اکثر طالب علم ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں ایک بلوچ خاتون شاری بلوچ کی جانب سے چینی اساتذہ پر ہونے والے خودکش حملے کے بعد بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملک کے خفیہ اداروں پر الزام عائد کیا کہ ان کی جانب سے بلوچ طالب علم کوہراساں کیا جارہا ہے۔

ماما قدید بلوچ نے بتایا کہ گزشتہ دنوں4 طالب علم کوئٹہ سے کیچ عید کی چھٹیاں منانے جارہے تھے کہ سی ٹی ڈی اور دیگر خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے انہیں مستونگ کے علاقے میں بس سے اتارا اور اپنے ساتھ لے گئے, جن کی تاحال کوئی اطلاع نہیں کہ وہ کس حالت میں ہیں۔

لاپتا افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرنے والے ایک بچے نے اپنے رشتہ دار کی تصویر اٹھا رکھی ہے۔(فائل فوٹو)
لاپتا افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرنے والے ایک بچے نے اپنے رشتہ دار کی تصویر اٹھا رکھی ہے۔(فائل فوٹو)

یاد رہے کہ ماما قدیر بلوچ اور ان کی تنظیم کے دیگر افراد سال 2009 سے کوئٹہ پریس کلب کے پاس لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے ایک علامتی احتجاجی کمیپ لگائے ہوئے ہیں جو گزشتہ 4 ہزار چھ سو دنوں سے جاری ہے۔ ماما قدیر اور ان کے ساتھی اکتوبر 2013 میں کوئٹہ سے کراچی تک پیدل لانگ مارچ بھی کر چکے ہیں۔

بلوچستان سے رواں سال کتنے لوگ لاپتا ہوئے؟

وائس فار بلوچ مسننگ پرسنز کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال اب تک بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 200 سے زائد افراد لاپتا ہوچکے ہیں ان میں سے اکثریت بلوچ طالب علموں کی ہے جو بلوچستان یا ملک کے دیگر علاقوں میں یونیورسٹیز میں زیر تعلیم رہے ہیں۔

تنظیم کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رواں سال جہاں 2 سو لوگ لاپتا ہوئے ہیں وہیں 65 افراد واپس اپنے گھروں کو لوٹے بھی ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ریاستی اداروں کی جانب سے بلوچ طلباء کی جبری گمشدگیوں میں تیزی کا سلسلہ کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ پر خود کش حملے کے بعد شروع ہوا ہے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے سےخطاب کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے پی)
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ اسلام آباد میں جبری گمشدگیوں کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرے سےخطاب کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے پی)

تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 40 کے قریب ایسے لاپتا افراد بازیاب ہوئے جو کہ 4 سے 6 سالوں تک لاپتارہے، جبکہ 180 کے قریب ایسے لوگ بھی بازیاب ہوئے جو ایک ہفتہ سے ایک ماہ تک غائب تھے۔

نصر اللہ بلوچ کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے لاپتا افراد کے کیسز میں جو جوڈیشل انکوائری کے علاوہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن نے بھی سال 2014 کی رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ لاپتا افراد کی گمشدگیوں میں ملک کے خفیہ ادارے ملوث ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ اور کمیشن متعدد بار لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے حکم جاری کرچکے ہیں مگر ان پر تاحال کوئی عمل درآمد نہیں ہورہا ہے۔

کون کب لاپتا ہوا؟

رواں سال 19 مئی کو بلوچستان سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون شاعرہ حبیبہ پیر جان کراچی سے مبینہ طور پر لاپتا ہوئیں اور چند روز بعد انہیں بازیاب کرلیا گیا۔

9جون کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے مکران ڈویژن سے تعلق رکھنے والے کراچی یونیورسٹی کے3 طالب علم مبینہ طور پر لاپتا ہوگئے ۔ 2مختلف واقعات میں لاپتا ہونے والے طلبہ کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ سے تھا, تاہم بعد میں ان طالب علموں کو بھی رہا کیا گیا۔

گزشتہ دنوں بلوچستان یونیورسٹی کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والے4 طالب علموں کو مستونگ کے علاقے سے مبینہ طور پر غائب کیا گیا۔

گزشتہ ماہ 28 جون کو مکران ڈویژن کے ضلع کیچ کے علاقے تربت سے 16 لاپتا افراد کے لواحقین نے دھرنا دیا، جس کے بعد ضلعی انتظامیہ سے مذاکرات کے نتیجے میں یہ دھرنا ختم کر دیا گیا۔

انسانی حقوق کی تنظمیوں کا حالیہ واقعات پر تشویش کا اظہار

انسانی حقوق کی تنظموں نے بھی بلوچستان میں بلوچ طالب علموں کی حالیہ جبری گمشدگیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان بلوچستان چیپٹر کے وائس چیئر پرسن طاہر حبیب ایڈوکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک لاپتا افراد کی تعداد میں اضافے کی بات ہے تو ہمارے پاس مصدقہ اعداد و شمار تو موجود نہیں ہیں کیونکہ یہ واقعات بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں،لیکن اگر ہم یہ دیکھیں کہ جب سے کراچی یونیورسٹی میں چینی اساتذہ پر ایک خاتون شاری بلوچ کی جانب سے خود کش حملے کا واقعہ پیش آیا ہے تب سے بلوچستان کے وہ طالب علم جو بلوچستان یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں یا کراچی میں، ان کے خلاف کریک ڈوان کا آغاز ہوا ہے۔

طاہر حبیب ایڈووکیٹ کے مطابق بہت سے طالب علموں کو لاپتا کیا گیا ،بالخصوص کراچی میں لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے آواز بلند کرنے والی خواتین کے ساتھ بھی ظالمانہ سلوک روا رکھا گیا، یہاں تک کے ان کو زد و کوب اور گرفتار بھی کیا گیا۔

انہوں نےمزید کہا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کو دوسرے صوبوں میں ایسے مسائل کا سامنا ہے جو کہ آئین اور قانون کے منافی ہیں۔

طاہر حبیب ایڈووکیٹ نکے مطابق ہہمیں ان واقعات پر تشویش ہے اور اگر یہ صورتحال جاری رہی تو بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کو تعلیم کے حصول میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار اور سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار سمجھتے ہیں کہ ہر دور حکومت میں لاپتا افراد کے مسئلے پر حکومتیں لیت و لعل سے کام لیتی رہی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق دور حکومت میں جب مرحوم رحمان ملک وفاقی وزیر داخلہ تھےتو انہوں نے کہا تھا کہ لاپتا افراد کی تعداد 30 سے 35 تھی، جن میں سے بعض افغانستان چلے گئے ہیں۔

ان کے مطابق گزشتہ چند ماہ کے دوران نہ صرف لاپتا افراد کی تعداد میں بلکہ ان کی بازیابی کے لیے احتجاج میں بھی اضافہ ہوا ہے، جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ کراچی میں احتجاج کرنے والی خواتین کو زد و کوب کیا گیا۔

شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ حکومت کو چائیے کی وہ لاپتا افراد کے مسئلے کو ترجیہی بنیادوں پر حل کرے، اور اگر حکومت کو کسی پر کوئی شک ہے تو اس کے خلاف مقدمہ دائر کرکے عدالتوں کو اس کا فیصلہ کرنے دے۔

حکومت کا موقف کیا ہے؟

وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کی زیر صدارت اسلام آباد میں جبری گمشدگی اور لاپتہ افراد کے حوالے سے قائم کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا دوسرا اجلاس اس ہفتے منعقد ہوا۔

اجلاس میں وفاقی وزیر برائے بحری امور فیصل سبزواری، وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت شازیہ مری اور وزارت داخلہ کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے اجلاس میں خصوصی شرکت کی اور لاپتا افراد کے معاملے کو حل کرنے کے لیے کمیٹی کے سامنے اپنی تجاویز رکھیں۔

کمیٹی نےمعاملے کی سنجیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے لاپتہ افراد کے معاملے کو جلد حل کرنے کے عزم کا اعادہ کیا اورآئندہ اجلاسوں میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی شرکت کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا گیا۔

کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ لاپتہ افراد سے متعلق کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں اور ریاستی اداروں کے نمائندوں کو بھی آئیندہ اجلاسوں میں شرکت کی دعوت دی جائے گی ۔

گزشتہ ماہ پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے نجی ٹی وی کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ لاپتا افراد کے لواحقین ثبوت دیں تو وہ ان کی بازیابی کے لیے تیار ہیں۔

دوسری جانب وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض پیرزادہ نے گزشتہ دنوں 'ڈان نیوز' کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا تھا کہ کچھ لاپتا افراد پاکستان میں گرفتار ہونے والے مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو یا ہمسایہ ممالک سے رابطوں میں تھے۔ ریاض پیرزادہ کے مطابق کچھ لاپتا افراد نے ہمسایہ ممالک میں بھی پناہ لے رکھی ہے۔

اس معاملے پر بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی کوششوں سے اب تک 400 سے زائد لاپتا افراد بازیاب ہو کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں، جب کہ وہ دیگر افراد کی بازیابی کے لیے بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔

وائس آف امریکہ نے اس حوالے سے بلوچستان حکومت کے ترجمان فرح عظیم شاہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ، تاہم اس خبر کی اشاعت تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

XS
SM
MD
LG