ویب ڈیسک۔ عراق کے شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کی جانب سے طاقت کے ایک نئے مظاہرے میں ان کے دسیوں ہزاریوں حامیوں نے جمعے کے روز بغداد کے گرین زون میں ایک دعائیہ اجتماع میں شرکت کی۔ اس سے قبل ان کے مخالفین نے قبل از وقت انتخابات کے ان کے مطالبے کی مشروط حمایت کا اعلان کیا تھا۔
مقتدیٰ الصدر عراق میں طویل عرصے سے ایک بڑی سیاسی طاقت ہیں اور ایران کی حمایت یافتہ حریف شیعہ جماعتوں کے ساتھ مہینوں سے ان کا سیاسی تنازعہ جاری ہے۔
مظاہرین گرین زون کے اندر ایک وسیع چوک میں جمع ہوئے۔ اس محفوظ زون میں سرکاری اور بیرونی ملکوں کے سفارت خانوں کی عمارتیں اور عراقی پارلیمنٹ کی عمارت شامل ہیں اس علاقے الصدر کے پیروکار 30 جولائی سے قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔
اجتماع میں شامل ان کے حامی اصلاحات کے حق میں اور بد دیانتیوں اور بد عنوانیوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔
نماز ختم کرنے کے بعد سینکڑوں لوگ پارلیمنٹ کی ایر کنڈیشن عمارت کی جانب لوٹ گئے جس پر وہ گزشتہ ہفتے کے روز سے قبضہ کئے ہوئے ہیں۔
الصدر کے حامیوں کا یہ بڑا دعائیہ اجتماع ان کی جانب سے قبل از انتخابات کے مطالبے کے بعد ہوا۔ ان کے حریف بلاک کا کہنا ہے کہ وہ مشروط طور پر ان کے مطالبے کی حمایت کے لئے تیار ہیں۔ حالانکہ ملک میں عام انتخابات کو ابھی کوئی دس ماہ ہی ہوئے ہیں۔
اور اس کے بعد سے اب تک پارلیمنٹ کے سب سے بڑے صدر بلاک اور دوسرے دھڑوں کے درمیان وزیراعظم اور صدر کے عہدوں کے لیے مذاکرات کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔
یہ سیاسی کشیدگیاں ایسے میں پیدا ہو رہی ہیں جب عراق بدستور بڑھتی ہوئی کرپشن میں گھرا ہوا ہے۔ اس کا انفرا اسٹرکچر شکست و ریخت کا شکار ہے اور بیروزگاری کی سطح بلند ہے۔
ماضی میں ہونے والے سمجھوتوں کے سبب الصدر بلاک کے نمائندے بھی سرکاری وزارتوں میں اعلی ترین عہدوں پر فائز رہے ہیں اور مخالفین کی جانب سے ان پر بھی اتنے ہی بد عنوان ہونے کے الزامات لگے ہیں جتنے دوسرے سیاسی لوگ ہیں۔
تاہم الصدر کے حامی تقریباً آنکھیں بند کرکے انکی پیروی کرنے کو تیار ہیں۔ اور انہیں بد عنوایوں کے خلاف جنگ کا چیمپئن سمجھتے ہیں۔
ان کے حامی جن میں زیادہ تر مرد اور کچھ خواتین بھی ہیں بغداد کی شدید گرمی سے خود کو بچانے کے لئے چھتریاں استعمال کر رہے تھے۔
ان میں سے کچھ عراق کا جھنڈا لہرا رہے تھے اور کچھ اپنے لیڈر کی تصویریں اٹھائے ہوئے تھے۔
الصدر دھڑا اکتوبر کے انتخاب میں پارلیمنٹ کے سب سے بڑے بلاک کی حیثیت سے ابھرا۔ لیکن بہرحال اکثریت حاصل نہ کرسکا۔
جون میں ان کے 73 قانون سازوں نے تعطل توڑنے کے لئےپارلیمنٹ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کا حریف ایران کا حامی “کو آرڈینیشن فریم ورک” نامی گروپ پارلیمنٹ کااکثریتی گروپ بن گیا۔
اس گروپ کی جانب سے کابینہ کے سابق وزیر محمد شیعہ السوڈانی کی وزارت عظمی کے عہدے کے لئے نامزدگی نے صدر کے بلاک کو مشتعل کردیا۔ اور ان کے حامیوں نے پارلیمنٹ پر قبضہ کر لیا۔
بدھ کو الصدر نے پارلیمنٹ توڑنے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کردیا۔ جمعرات کو دیر گئے کو آرڈینیشن فریم ورک نے کہا کہ وہ اس کے لئے تیار ہے۔ اور یوں کشیدیگی میں کمی کا اشارہ دے دیا۔
پارلیمنٹ کے سبکدوش ہونے والے اسپیکر نے جن کا تعلق اقلیتی سنی برادری سے ہے ٹوئیٹر پر نئے انتخاب کی حمایت کا اظہار کیا ہے
ان کا کہنا تھا کہ عوام کی خواہش کو نظر انداز کرنا نا ممکن ہے۔
(خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا)