رسائی کے لنکس

پاکستان: بغاوت کے اکثر مقدمات میں الزام ثابت کیوں نہیں ہو پاتا؟


پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گل کے خلاف افواجِ پاکستان کے جونیئر افسران کو بغاوت پر اُکسانے کے الزام میں مقدمہ درج ہے اور جمعے کو اس مقدمے میں انہیں اسلام آباد کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی رہنما کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا ہو۔ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس نوعیت کے بیشتر مقدمات منطقی انجام تک نہیں پہنچتے۔

ریاست کے خلاف جنگ پر اکسانے، ریاست کے خلاف بغاوت، فوج کو بغاوت پر اکسانا، ہنگامہ آرائی پر جان بوجھ کر اُکسانا، شر پھیلانا، مجرمانہ دھمکیاں اور اس جیسی کئی دفعات کے تحت ماضی میں مقدمات بنتے رہے ہیں۔ان مقدمات میں اگر کسی کو ٹرائل کورٹ سے سزا ملی بھی تو ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے اس سزا کو بالآخر کالعدم قرار دیا یا پھر مقدمہ ہی نہیں چلا۔

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے سنجیدہ الزامات کے تحت مقدمات کو ثابت کرنے کے لیے جو شواہد درکار ہوتے ہیں انہیں پراسیکیوشن کی جانب سے ثابت نہیں کیا جاتا جس کی بنا پر اکثر مقدمات عدالتوں میں جھوٹے اور من گھڑت ثابت ہوتے ہیں۔

سابق اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان کا کہنا ہے کہ اگر بغاوت کے مقدمات میں شواہد ہی نہ ہوں تو عدالت میں اس طرح کے الزامات کیسے ثابت ہوں گے؟ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر کیسز اس لیے قائم کیے جاتے ہیں تاکہ مخالفین کو دبایا جاسکے اور انہیں قابو میں رکھا جاسکے۔

انور منصور خان کا کہنا ہے کہ اگر ان کیسز میں کچھ افراد کو سزا ہوئی بھی ہے تو وہ فوجی تھے اور ان میں زیادہ تر کیسز میں تفصیلات کو پبلک نہیں کیا گیا۔ کچھ ایسے کیسز بھی تھے جو فوجی افسران کے خلاف بھی ثابت نہیں ہوپائے۔ لیکن انہیں یاد نہیں پڑتا کہ کسی سویلین کو ان الزامات کے تحت باقاعدہ عدالتی عمل مکمل ہونے کے بعد کوئی سزا ہوئی ہو۔

پاکستان میں بغاوت کے الزامات کے تحت درج مقدمات کی طویل فہرست ہے جس کی ابتدا قیام پاکستان کے محض ایک سال بعد ہی خدائی خدمات گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان کے خلاف درج مقدمے سے ہوتی ہے۔

باچا خان کے نام سے مشہور خان عبدالغفار خان کو 15 جون 1948کو اس وقت کی حکومت کے خلاف بغاوت کے الزام میں فرنٹرئیر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر)کے تحت گرفتار کیا گیا۔ مختصر مقدمہ چلانے کے بعد انہیں پانچ سال حراست میں رکھا گیا اور بعد میں بھی طویل نظر بندی میں رکھا گیا۔ ان کی جماعت کو کالعدم قرار دیا گیا اور تحریک کے رہنماؤں کی جائیدادوں کو بھی ضبط کیا گیا۔ لیکن ان پر بغاوت کے الزام کو کسی عدالت نے کبھی دُرست قرار نہیں دیا۔

راولپنڈی سازش کیس

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے 9 مارچ 1951 کو اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ ایک ایسی سازش کی جا رہی ہے جس کے تحت ملک میں افراتفری پھیلانے اور فوج کی وفاداری کو داؤ پر لگانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

حکام کے مطابق اس سازش کو تیار کرنے والے کمیونسٹ نظریات کے حامی تھے اور وہ حکومت کی امریکی بلاک میں شمولیت پر نالاں تھے۔یہ مبینہ سازش بنانے کا الزام فوج کے چیف آف جنرل اسٹاف میجر جنرل اکبر خان، ان کی بیگم نسیم جہاں اکبر ، پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر اور معروف شاعر فیض احمد فیض اور دو بریگیڈئیرز سمیت چار سویلینز اور 11 دیگر فوجی افسران پر عائد کرتے ہوئے مقدمے کی کارروائی کے لیے خصوصی ٹریبیونل تشکیل دیا گیا۔

اس مقدمے کو چلانے کے لیے خصوصی قانون متعارف کرایا گیا جسے کئی تاریخ دانوں نے ہر لحاظ سے ایک امتیازی قانون قرار دیا۔ ایکٹ میں اپیل کا حق دیا گیا اور نہ ہی ضمانت کا۔

ڈاکیومینٹری | پاکستان: آزادی سے مارشل لا تک
please wait

No media source currently available

0:00 0:52:50 0:00

خصوصی عدالت نے راولپنڈی سازش کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے میجر جنرل اکبر خان کو برطرف کرکے 12 سال قید کی سزا سنائی لیکن چار سال بعد ہی انہیں اس الزام میں رہائی مل گئی۔ بعض فوجی افسران کو اس مقدمے میں قید بامشقت کی سزائیں بھی سنائی گئی تھیں، بیگم نسیم جہاں اکبر کو دو سال کی سزا سنائی گئی لیکن بعد میں انہیں بھی بری کردیا گیا۔

فیض احمد فیض کو پانچ برس کی سزا سنائی گئی تھی لیکن 1955 میں انہیں ایکٹ ختم ہونے پر رہائی مل گئی۔ کسی بھی کردار کو بغاوت کے اس مقدمے میں سب سے بڑی سزا یعنی سزائے موت نہیں سنائی گئی۔

اگرتلہ سازش کیس

صدر جنرل ایوب خان کے دور اقتدار میں 1968 میں حکومت نے فوجی افسران اور سیاسی رہنماؤں سمیت 28 افراد کو گرفتار کرکے الزام عائد کیا کہ وہ بھارت کے ایماء پر مشرقی پاکستان کو الگ ملک بنانے کے لیے سازش کررہے تھے۔

سازش کا الزام جن پر لگا ان میں نیوی کے لیفٹیننٹ کمانڈر معظم حسین اور دیگر عام شہری شامل تھے جب کہ بعد میں اسی کیس میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمٰن کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بھارتی ریاست تری پورہ کے شہر اگرتلہ میں بھارتی فوجی قیادت سے ملاقات کرکے اس سازش کو تیار کیا۔

ادھر شیخ مجیب الرحمٰن سمیت دیگر سیاسی قیادت پر مقدمے کی کارروائی شروع ہوئی تو اسی عرصے میں مشرقی پاکستان میں بڑے پیمانے پر مظاہرے اور ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی۔ امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال کو قابو میں کرنے کے لیے حکومت نے تمام ملزمان کو رہا کرنے اور مقدمہ ختم کرنے کا حکم دے دیا۔ تاہم شیخ مجیب الرحمٰن کو رہا نہ کیا گیا۔ لیکن مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کے بعد حکومت کو شیخ مجیب الرحمٰن کو بھی رہا کرنا پڑا جو پھر بنگلہ دیش کے پہلے صدر اور وزیر اعظم بنے۔

حیدرآباد سازش کیس

سن 1975 میں نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر علیحدگی پسند جماعت ہونے کے الزام کے تحت پابندی لگنے کے بعد اس جماعت کے چار درجن سے زائد رہنماؤں کے خلاف بغاوت کے الزام کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ جس کی کارروائی حیدرآباد جیل میں شروع ہوئی۔

اس کیس میں نیپ کے سابق سربراہ خان عبد الولی خان، سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار عطا اللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، افراسیاب خٹک اوردیگر رہنما شامل تھے۔

اس دوران ملک میں مارشل لاء لگ گیا اور جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آگئے۔ جنرل ضیاالحق نے 1978میں حیدرآباد ٹریبیونل توڑنے کا اعلان کیا اور عدم ثبوت کی بناء پر تمام ملزمان کو رہا کرنے کا بھی حکم دے دیا۔

اٹک سازش کیس

مارچ 1973 میں آرمی اور ایئر فورس کے کئی افسران کو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں گرفتار کرکے اٹک قلعہ میں قید اور مقدمہ قائم کیا گیا۔ ایک سال کیس چلنے کے بعد آرمی کے 15 اور فضائیہ کے چار افسران کو حکومت کے خلاف بغاوت تیار کرنے کے الزام میں تین ماہ قید اور بعض کو عمر قید کی سزا بھی سنائی گئی۔

ایسے ہی الزام کے تحت 1984 میں جنرل ضیاء الحق نے رضا کاظم ایڈووکیٹ سمیت 14فوجی افسران اورعام شہریوں پر اٹک قلعے میں مقدمہ چلایا۔ ان ملزمان پر الزام تھا کہ انہیں ملک میں ہنگامہ آرئی اور لوگوں کو بغاوت پر اکسانے کے لیے بھارت سے اسلحہ مہیا کیا گیا ہے۔

کیس میں نامزد 12 ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا گیا جب کہ تین ملزموں کو سزا سنائی گئی لیکن ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں ہلاکت اور پھر 1988 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آنے کے بعد ان افراد کو رہا کردیا گیا۔

بغاوت کے ان بڑے مقدمات کے علاوہ ان الزامات کے تحت کئی شہریوں اور فوجی افسران کو بھی مورد الزام ٹھہرایاجاتا رہا۔جب کہ سیاست دان اپنی تقاریر میں مخالفین کوزیر کرنے کے لیے انہیں ملک و ملت کا غدار بھی قرار دیتے رہے۔ سن 1965 کے صدارتی انتخابات کی مہم میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو باچا خان کی حمایت حاصل کرنے پر 'غدار' جیسے القابات سے نوازا گیا۔

اسی طرح سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانہ اقتدار میں اتحاد برائے بحالی جمہوریت ( اے آر ڈی) کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی کے خلاف بھی ملک دشمنی، بغاوت اور جعل سازی کے الزامات کے تحت مقدمے کا انداراج کیا گیا۔

جاوید ہاشمی نے ایک پریس کانفرنس میں ایک ایسے خط کی کاپی صحافیوں کو فراہم کی تھی جو ان کے بقول آرمی کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) سے اعلیٰ فوجی افسران نے لکھا تھا۔ اور خط میں اعلی فوجی افسران نے جنرل مشرف کی پالیسوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ مشرف کی ان کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں فوج بدنام ہو رہی ہے۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے انہیں 23 سال قید کی سزا سنائی تھی لیکن چار سال بعد سپریم کورٹ نے اس کیس میں انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ اس کے علاوہ الطاف حسین، میاں محمد نوازشریف، عمران خان، طاہرالقادری ، پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں سمیت کئی سیاسی کارکنوں پر پاکستان پینل کوڈ کی انہی دفعات کا استعمال کرتے ہوئے مقدمات قائم کیے جاتے رہے ہیں۔لیکن کسی کوسزا نہ مل سکی۔

بغاوت کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ نواز شریف کے آخری دورِ اقتدار کے دوران سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت آئین شکنی کے الزام میں مقدمہ چلا جو پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 121 سے 124 کے تحت ملک سے بغاوت سے بالکل مختلف اور سنگین غداری کے زمرے میں آتا ہے۔

وفاقی حکومت کی درخواست پر قائم ہونے والے خصوصی ٹریبیونل نے سماعت کے بعد جنرل مشرف کے خلاف عائد الزام کو درست قرار دیتے ہوئے انہیں دسمبر 2019 میں سزائے موت کا حکم دیا۔ لیکن اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل زیر التوا ہے جسے ایک بار بھی سماعت کے لیے مقررنہیں کیا گیا۔

سابق اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان کہتے ہیں قانون کے مطابق بغاوت اور غداری جیسے سنجیدہ الزام میں سرکار کو کسی شک و شبہے کی گنجائش کے بغیر ثبوت پیش کرنا ہوتے ہیں اور اگر ذرا سا بھی کوئی شک پیدا ہوگا تو اس کا فائدہ ملزم کو ملے گا۔

ان کے بقول، "پاکستان پینل کوڈ میں درج یہ قوانین برطانوی دور کے قوانین ہیں۔ جو برصغیر کے علاوہ خود برطانیہ میں بھی رائج تو ہیں لیکن ان کا اطلاق برطانیہ میں ان کے خیال میں پچھلی صدی سے نہیں ہوا ۔"

قانونی ماہر اور کمنٹیٹرعبدالمعیز جعفری ایڈووکیٹ کہتے ہیں بغاوت کا الزام عائد کرنے والے ہی ان کیسز کو ثابت کرنے میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔بلکہ یہ الزام آپ کو سبق سکھانے کے لیے لگائے جاتے ہیں۔ تاکہ آپ کو چند روز حوالات میں رکھا جائے، اس کا مقصد بُرے سے بُرے حالات میں رکھ کر آپ کو انتقاماً سبق سکھاناہوتا ہے۔ اس لیے بغاوت کے الزام کے مقدمات منطقی انجام تک نہیں پہنچتے۔

انہوں نے کہا کہ بغاوت کے مقدمات میں پراسیکیوشن کو گواہان کے بیانات اور واقعاتی شواہد سے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ یہ منظم سازش تھی اور ملزم یا ملزمان واقعی لوگوں کو ملک کے مفادات کے خلاف اکسا رہے تھے۔اب یہ سب ثابت کرنا اتنا آسان نہیں۔

ایڈووکیٹ عبدالمعیز کہتے ہیں جب کسی کے خلاف بغاوت کے الزامات کو ثابت کیا جاتا ہے تو ریاست کمزور لگتی ہےلیکن جب ریاست یہ الزامات لگاتی ہے تو وہ اپنی کمزوری کے اظہار کے لیے نہیں بلکہ اپنے غصے کے اظہار کے لیے لگاتی ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG