افغانستان اور مشرق وسطی میں امریکی افواج کی موجودگی کی نگرانی کرنے والے آخری کمانڈروں کے بقول افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کے بعد امریکہ پہلے کی نسبت کچھ زیادہ محفوظ نہیں ہوا ہے اور یہ کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پھر صدر جو بائیڈن کے افغانستان سے تمام امریکی فوجوں کو نکالنے کا عزم سقوط کابل پر منتج ہوا۔
امریکہ کی سینٹرل کمان یا سینٹکام کے سربراہ ریٹائیرڈ جنرل فرینک میکنزی نےجو 2019 سے 2022 تک اس منصب پر رہے اور ریٹائیرڈ جنرل جوزف ووٹل نے جو 2016 سے 2019 تک سینٹکام کے سربراہ رہے پیر کے روز وائس آف امریکہ سے افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی بیس سالہ جنگ پر خصوصی بات چیت کی۔
جنرل میکنزی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ افغانستان سے فوجیں نکالنے کے نتیجے میں آج ہم پہلے کی نسبت زیادہ محفوظ ہیں۔انہوں نے امریکی صدور کو کم از کم ڈھائی ہزار امریکی فوجی افغانستان میں رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔
جنرل ووٹل نے کہا کہ جو دہشت گرد تنظیمیں وہاں باقی رہ گئی ہیں ان کے بارے میں ایسا بہت کچھ ہے جو ہم نہیں جانتے۔
انہوں نے کہا، ’’اور میں نہیں سمجھتا کہ ہم زیادہ مستحکم اور زیادہ محفوظ ہیں۔ میرے خیال میں افغانستان زیادہ غیر مستحکم ہے اور اسکا نتیجہ یہ ہے کہ پورا خطہ زیادہ غیر مستحکم ہو گیا ہے۔‘‘
میکنزی نے بار بار کہا کہ افغانستان میں امریکہ کی جانب سے انٹیلیجینس جمع کرنے کا کام اسکے مقابلے میں بہت کم رہ گیا ہے جتنا فوجوں کی واپسی سے پہلے تھا۔ اور ووٹل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ القائدہ کے لیڈر ایمن الظواہری کے خلاف حالیہ امریکی حملہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ اب بھی وہاں کچھ انٹیلیجینس صلاحیتیں برقرار رکھے ہوئے ہے اور یہ حقیقت کہ اس ماہ کا حملہ گزشتہ برس امریکی فوجوں کی واپسی کے بعد اس نوعیت کا پہلا حملہ تھا یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کو ابھی وہاں کام کرنا باقی ہے۔
دونوں جنرلوں نے کہا کہ افغانستان سے تمام امریکی افواج نکالنے کے فیصلے کے نتیجے میں کابل کا سقوط ہوا۔ یہ فیصلہ دو صدور کی مدت صدارت میں ہوا۔ امریکی صدور اپنی مدت کے دوران افواج کے کمانڈر انچیف بھی ہوتے ہیں۔ اور سینئر فوجی عہدیدار اپنے سویلین عہدیداروں کو مختلف امور پر متبادلات بھی پیش کرتے ہیں۔ اور پھر سویلین لیڈر جو بھی فیصلہ کریں اس پر عمل کرتے ہیں۔
بائیڈن نے یہ کہتے ہوئے اپنے فیصلے کا دفاع کیا تھا کہ ان کے اقدام کا مقصد امریکی زندگیاں بچانا ہے۔ اور گزشتہ سال فوج کی واپسی کے آخری دن انہوں نے کہا تھا کہ وہ اسے ہمیشہ جاری رہنے والی جنگ نہیں بنائیں گے۔
جنرل ووٹل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ہر شخص کو افغانستان سے نکالنا ضروری تھا۔ اور افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کی موجودگی ایک ضروری انشورنس پالیسی تھی کہ امریکہ افغانوں کی مدد کر سکتا ہے اور ہمارے ان قومی سیکیورٹی مفادات کی حفاظت کر سکتا ہے جو اس ملک سے وابستہ ہیں۔
بائیڈن نےکہا تھا کہ ٹرمپ حکومت نے طالبان کے ساتھ جو مذاکرات کئے تھے ان کے نتیجے میں وہ دو ہی کام کر سکتے تھے۔ یا افغانستان سے نکل آئیں یا جنگ کو بڑھا دیں جس کے لئے انہیں پھر لاکھوں فوجی وہاں بھیجنے پڑتے۔
لیکن جنرل میکنزی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی بڑی تعداد کی ضرورت تھی۔ انہوں نے کہا کہ صدر ڈھائی ہزار فوجی افغانستان میں رکھنے کا فیصلہ کر لیتے تو ان کے خیال میں امریکہ طالبان کے لئے ایک زیادہ مشکل ہدف ہوتا۔ اور اس کے پاس افغان فوج کو مشورہ دینے اور انکی مدد کرنے کی صلاحیت بھی برقرار رہتی ۔