رسائی کے لنکس

'کئی خواتین کیچڑ بھرے گھرچھوڑکر امدادی کیمپ جانے کو تیار نہیں'


راجن پور ، پنجاب میں سیلاب کے بعدآرمی کا ریسکیو آپریشن(فائل فوٹو: اے پی)
راجن پور ، پنجاب میں سیلاب کے بعدآرمی کا ریسکیو آپریشن(فائل فوٹو: اے پی)

SEEواشنگٹن ڈی سی

"پاکستان میں دو ہزار دس میں آنے والے تباہ کن سیلاب کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں کو اِس بار بھی بالکل ویسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔ اگر اُس وقت کے حالات سے سبق سیکھا جاتا ،تو آج ہم اِس قدرتی آٖفت سے نمٹنے کے لیے بہتر طور پر تیار ہوتے۔"

یہ کہنا تھا شبنم بلوچ کا ، جو انسانی امداد اور ترقی کے لیےعالمی سطح پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم" انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی" کے لیے پاکستان کی کنٹری ڈائریکٹر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ موجودہ سیلاب کے بعد حکومت کا ریلیف ریسپانس قابلِ ستائش ہے، لیکن اِس میں بہتری ہو سکتی تھی۔

شبنم بلوچ، کنٹری ڈائریکٹر (پاکستان)، انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی
شبنم بلوچ، کنٹری ڈائریکٹر (پاکستان)، انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی

سیلاب سے اتنانقصان کیوں ہوا؟

انہوں نے کہا کہ2010کے سیلاب کے تجربے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ ایسے ادارے جِن کا کام اِس طرح کی قدرتی آفات سے نمٹنا ہے ،اُن کی صلاحیت کتنی ہے؟ہم نے اُن کے لیے کتنے فنڈز مختص کیے؟ ہمارا انفراسٹرکچر کیسا ہے؟ شبنم کے مطابق ہمیں پتہ ہے کہ پاکستان دنیا کے اُن دس ملکوں میں شامل ہے، جوقدرتی آفات کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔تو ہم نے اپنے سسٹمز کواِن اثرات کو برداشت کرنےکے حوالے سے کتنامضبوط بنایا ہے ؟

اُنہوں نے نشاندہی کی کہ محکمہ ِ موسمیات کی جانب سے پیشگی وارننگز جاری کی جاتی رہی تھیں،کہ اِس بار بہت زیادہ بارشیں ہونگی، جبکہ یہ مون سون کا ساتواں دور(سپیل) تھا ۔پیشگی وارننگ وہ وقت ہوتا ہے ، جب فوری طور پرایکشن شروع کر دیا جاتا ہے۔لیکن ہمارا ریسپانس سست رہا۔ نہ پیشگی تیاری تھی، نہ کمیونٹی کو اِس حوالے سے تیار کیا گیا تھا اور نہ ہی ہمارے ادارے تیار تھے۔ اگر ہم الرٹ ہوتے تو اِن نقصانات کو کچھ کم کر سکتے تھے۔

حکومت کا ریسپانس کیسا رہا؟

شبنم بلوچ کے مطابق حکومت کا ریسپانس جتنا فوری ہونا چاہیئے تھا،اُس سے قدرے سست رہا۔جس کی وجہ سے گیارہ سو سے زیادہ لوگ جان کی بازی ہار گئے۔لیکن ساتھ ہی انہوں نے واضع کیا کہ حکومتی کارروائیاں سست ہونے کے باوجود، اُن کا کام قابلِ ستائش ہے۔کچھ مثالیں پیش کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کے ریلیف کیمپس کے اندر بہت مدد فراہم کی جا رہی ہے۔سول ملٹری کورڈی نیشن بھی بہت عمدہ ہے،ایسی پر خطر جگہیں جہاں تک رسائی ناممکن ہے، وہاں آرمی نے پہنچ کر لوگوں کا انخلا کیا۔حکومت کے میڈیکل کیمپس میں لوگوں کو فوری طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے ۔حکومت کی کوششوں کی وجہ سے کئی عالمی اداروں نے بڑی تعداد میں امداد بھیجی۔

سیلاب سے نقصان کا تخمینہ

شبنم نے بتایا کہ ابھی تک سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا سرکاری یا این جی اوز لیول پر مکمل تخمینہ نہیں لگایا جا سکا ، کچھ اعداد و شمار موجود ہیں، لیکن خدشہ ہے کہ حقیقی نقصان اِس سے کہیں زیادہ ہوا ہے۔ اُن کے مطابق 2010کے سیلاب میں 2 کروڑلوگ متاثر ہوئے تھے اوراِس بار تعداد تین کروڑ تیس لاکھ ہے۔

سندھ میں معمول سے 784فیصد اور بلوچستان میں 500فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں، جبکہ آنے والے ہفتوں میں مزید مون سون بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔130سے زائد پل ، 3000 کلو میٹر طویل سٹرکیں اور کم از کم 5لاکھ گھر تباہ ہوئے ہیں۔ 8 لاکھ مویشی اور 40 لاکھ ایکٹرپر کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا۔ان کے مطابق پاکستان میں کووڈ کی وبا کی وجہ سے پہلے ہی خوراک کا بحران چل رہا تھا، جو یوکرین روس جنگ کے بعد نہ صرف مزید بڑھ گیا بلکہ کھاد اور بیجوں کی شدید قلت بھی پیدا ہوگئی۔اُس کے علاوہ ملک کے 72 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ۔سندھ میں صحت کے تقریبا ایک ہزار مراکز جبکہ بلوچستان میں 198مراکز تباہ ہوئے۔ شبنم بلوچ کے مطابق صوبہ سندھ ملک کا سب سے نشیبی علاقہ ہے، اس لیے جب بھی سیلاب آتا ہے تو بہت سا سیلابی پانی اِس صوبے کا رخ کرتا ہے اوروہاں کئی ماہ تک کھڑا رہتا ہے۔اس بار خدشہ ہے کہ کم از کم ڈھائی ماہ تک یہ سیلابی پانی وہاں کھڑا رہنے کی وجہ سے اگلی کاشت ، بالخصوص گندم کی فصل کی بوائی کے لیے زمین دستیاب نہیں ہو گی، جس کی وجہ سے کسان بہت پریشان ہیں۔

انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کی ٹیم سیلاب سے متاثرہ علاقے میں کھانے کی اشیا تقسیم کررہی ہے
انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کی ٹیم سیلاب سے متاثرہ علاقے میں کھانے کی اشیا تقسیم کررہی ہے

سیلاب زدگان کی اہم ترین ضروریات کیا ہیں؟

شبنم بلوچ نے بتایا کہ انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی نے سیلاب زدگان کی فوری ضروریات کا تخمینہ یعنی "ریپڈ نیڈزاسیسمنٹ" کیا، بلوچستان میں یہ مکمل ہو چکا اور سندھ میں ابھی جاری ہے۔لوگوں کی جو اہم ترین ضروریات سامنے آئی ہیں، اُن میں خوراک، پینے کا صاف پانی، خیمے،کمبل، ہیلتھ اینڈ ہائی جین کٹس وغیرہ شامل ہیں۔اُن کے مطابق متاثرہ لوگوں میں سےساڑھےساٹھ لاکھ کو فوری مدد کی ضرورت ہے،جس میں پانچ لاکھ حاملہ خواتین ہیں۔کھڑے پانی کی وجہ سے گیسٹرو کے علاوہ آنکھوں اور جلد کی بیماریاں بہت تیزی سے پھیل رہی ہیں۔جن سے نمٹنے کے لیے ہر علاقے میں جا کر تین سے چار دن کے موبائل کیمپس لگائے جا رہے ہیں۔حکومت کوشش کر رہی ہے کہ ہر کیمپ میں کم از کم ایک لیڈی ڈاکٹر موجود ہو، تاکہ خاص طور پر حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کی مخصوص ضروریات کو فوری طور پر پورا کیا جا سکے۔پیچیدہ طبی مسائل کےحل کے لیے مریضوں کو ڈسٹرکٹ لیول کے ہسپتالوں میں ریفر کیا جا رہا ہے۔

انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے اِس سروے میں حصہ لینے والے40فیصد سیلاب زدگان نے بتایا کہ اُن کی اہم طبی سہولیات تک رسائی نہیں، 70 فیصد سے زیادہ کے پاس پینےکا صاف پانی نہیں،60 فیصد نے کہا کہ ان کا علاقہ رہنے کے لیے محفوظ نہیں، 87فیصد خواتین اور لڑکیوں کو لیٹرین تک محفوظ رسائی حاصل نہیں،63فیصد دودھ پلانے والی اور حاملہ خواتین سہولیات کے فقدان کی وجہ سے انتہائی مشکل میں ہیں۔

پاکستان میں سیلاب: حاملہ خواتین مشکلات کا شکار
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:44 0:00

سیلاب زدگان کی امداد میں کیا رکاوٹیں ہیں؟

شبنم بلوچ کے مطابق اب تک کی ریلیف کاروائیاں صرف ایسے علاقوں میں ممکن ہو سکی ہیں، جہاں تک حکومت اور امدادی اداروں کی رسائی ہے، جبکہ اصل زمینی حقائق موجودہ اندازوں سے کہیں زیادہ ابتر ہونے کا اندیشہ ہے۔

سب سے بڑا مسئلہ نقل و حمل اور مواصلاتی نظام میں خلل ہے، جو لوگوں تک پہنچنے میں بہت مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ کچھ متاثرہ علاقوں کی ثقافت اور روایتیں ایسی ہیں،کہ لوگ امدادی کیمپس میں جانا پسند نہیں کرتے۔شبنم نے بتایا کہ انہوں نے اپنے دوروں کے دوران کافی گھر ایسے دیکھے ، جو کیچڑ اور پانی سے بھرے پڑے تھے، لیکن بچے اور خصوصا خواتین اندر ہی موجود تھیں،اور باہرامدادی اور عارضی کیمپوں تک جانے کے لیے راضی نہیں تھیں۔ایسی صورتحال میں ہر گھر تک خود جا کر امداد پہنچانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔اُن کے بقول بلوچستان میں اُنہیں اِس مسئلے کا بھی سامنا ہے کہ وہاں کی آبادی بہت بکھری ہوئی ہے، جب تک لوگ ایک جگہ جمع نہیں ہوں گے، تو امدادی کاروائیوں میں مشکلات پیش آئیں گی۔آمد و رفت کا نظام درہم برہم ہونے کی وجہ سے ہر متاثرہ علاقے میں پینے کا صاف پانی پہنچانے میں بھی دشواریوں کا سامنا ہے ، کیونکہ ابتدائی طور پر ٹرکوں کے ذریعے یہ سہولت مہیا کی جا رہی ہے۔لیکن کچھ عرصے میں جب کھڑا پانی اُتر جائے گا اورحالات کچھ بہتر ہوجائیں گے، ، تو پھر پانی کو فلٹر کرنے کاسسٹم متعارف کرایا جائے گا۔

عوام، سیلاب زدگان کے لیے کیا سامان بھیج سکتے ہیں؟

شبنم بلوچ نے عوام کو مشورہ دیا کہ اُنہیں خود متاثرہ علاقوں تک جا نے کی کوشش کرنے کی بجائے ، سیلاب زدگان کے لیے ضروری سامان، امدادی تنظیموں کے حوالے کرنا چاہیئے۔اُن کے مطابق عوام کی رہنمائی کے لیے حکومت نے ایک سٹینڈرڈ فہرست جاری کر رکھی ہے کہ متاثرین کو کون سی اشیا بھیجی جائیں، جس میں خشک راشن ، خشک دودھ، خیمے، کمبل، مچھر دانیاں،صحت اور صفائی کی کٹس وغیرہ شامل ہیں۔شبنم کے مطابق عوام پکے ہوئے کھانے کی بجائے خشک اشیا جیسے آٹا، چاول، دالیں بھیجیں تو بہتر ہے، کیونکہ پکا ہواکھاناا سٹور کرنے کا انتظام موجود نہیں۔ویسے بھی حکومت اور این جی اوز کے کیمپس میں سیلاب زدگان کے لیے پکے ہوئے کھانے کا انتظام کیا جا رہا ہے ۔

انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کی ایک تقریب سے شبنم بلوچ کا خطاب
انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کی ایک تقریب سے شبنم بلوچ کا خطاب

عوام کس فرد یا ادارے کو عطیات دیں؟

شبنم بلوچ کے مطابق کسی بھی ایسی نا گہانی آفت کے بعد بہت سے ایسے افراد یا ادارے بھی چندے مانگتے ہیں، جو رجسٹرڈ نہیں ہوتے، عوام کو تسلی کرنے کے بعد ہی چندہ دینا چاہیے۔ جب کہ حکومت بھی کوشش کر رہی ہے کہ ایسے افراد کے خلاف کریک ڈاون کیا جائے۔اُنہوں نے بتایا کہ اس صورتحال میں میڈیا بھی بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بہت سی معلومات واٹس ایپ اور فون کے ذریعےشئیر کی جا ری ہیں۔ جیسے کسی گاوں سے میسج آتا ہے کہ وہاں ابھی تک لوگ پھنسے ہوئے ہیں، یا یہ کہ کیمپ تو موجود ہےلیکن خواتین کی ضروریات کے حوالے سے مسائل ہیں،اُنہیں کٹس کی ضرورت ہے۔بچوں کو سوکھا دودھ نہیں مل رہا یا مارکیٹ میں مخصوص اشیا موجود نہیں وغیرہ۔اس کے علاوہ ریلیف کمشنرز کے دفاتر میں معلوماتی پیمفلٹس بھی لگے ہوتے ہیں، جن پر اُس علاقے کے فوکل پرسنز کے فون نمبریا اُن کے فیس بک پیجز کی تفصیلات درج ہوتی ہیں ۔مختلف مقامی ریڈیو چینلز پر بھی معلومات دی جا رہی ہیں۔ لہذا عوام کے لیے تفصیلات حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع موجود ہیں۔

سیلاب زدگان کی مکمل بحالی کے لیے کتنا عرصہ درکار ہوگا؟

شبنم بلوچ نے بلوچستان کے وزیر اعلی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اُن کے مطابق بلوچستان کو دوبارہ تعمیر کرنے میں پچیس سال تک لگ جائیں گے۔شبنم کے مطابق سیلاب زدگان کی زندگی نارمل کرنے کا انحصار اِس بات پر بھی ہے کہ ہم اِن کوششوں کے لیے کتنے وسائل لگاتے ہیں۔ایک ملک جو پہلے ہی معاشی مسائل کا شکار تھا، اُسے سیلاب کی وجہ سے مزید دس ارب ڈالرکا نقصان ہوا۔ ایسے میں ریلیف ورک کو صحیح طرح سے نہ کیا گیا تولوگوں کی زندگی کی بحالی میں کئی سال لگ جانے کا اندیشہ ہے۔

ایک اسکول میں انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کا خواتین کے لیے عارضی میڈیکل کیمپ
ایک اسکول میں انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کا خواتین کے لیے عارضی میڈیکل کیمپ

انٹرنیشنل این جی اوز پر حکومت کی پابندیاں، ریلیف کوششوں میں مشکلات؟

شبنم بلوچ کے بتایا کہ انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی 1980 سے پاکستان میں کام کر رہی ہے اور اُنہیں کبھی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کیونکہ کافی جگہوں پروہ ایسے لوکل پارٹنرز کےذریعے کام کرتے ہیں ،جنہیں چھ مہینے تک حکومت کی این او سی کی ضرورت نہیں ہوتی۔اس کے علاوہ ہر نئے پراجیکٹ کا آغاز حکومت کو اطلاع کے بعد ، این او سی ملنے کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔ شبنم کے مطابق ،اگراُنہیں ڈونرز کو کسی جگہ کا دورہ کروانا ہو، تو بھی اُنہیں حکومت کا تعاون حاصل رہتا ہے۔ البتہ انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی نے حکومتِ پاکستان سے درخواست کر رکھی ہے کہ ہر سال ایک نیا میمورینڈم آف انڈرسٹینڈنگ (ایم او یو) سائن کرنے کی بجائے اِسکی مدت تین یا پانچ سال تک کر دی جائے۔

XS
SM
MD
LG