واشنگٹن ڈی سی (اکمل داوی ، قمر عباس جعفری) بھارتی نژاد برطانوی مصنف سلمان ر شدی پر نیو یارک میں بارہ اگست کو چاقو سے ہونے والے ایک حملے کے فوری بعد ایران کے اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی کے اس حوالے سے عشروں پرانے فتوے کی گونج ایک بار پھر سنائی دینے لگی کیونکہ بادی ا لنظر میں یہ ہی فتوی اس حملے کا سبب بنا تھا۔
وائس آف امریکہ کے لیے اکمل داوی کی رپورٹ کے مطابق چوبیس سالہ حملہ آور نے ہر چند کہ چاقو سےکئے جانے والے حملے کے محرک کے طور پر اس فتوے کا حوالہ نہیں دیا۔ حملہ آور کا موقف یہ رہا کہ وہ رشدی کو پسند نہیں کرتا اور یہ کہ اس کی متنازعہ کتاب “سیٹینک ورسز” کو ،جس کے اس نے صرف چند صفحات پڑھے ہیں، اسلام کی توہین سمجھتا ہے۔
انیس سو اٹھانوے میں اس وقت کے ایرانی صدر محمد خاتمی سمیت متعدد ایرانی عہدیداروں کے ان بیانات کے باوجود کہ اسلامی جمہوریہ ایران رشدی کے قتل کے خمینی کے فتوے کی حمایت نہیں کرتا اب بھی یہ باور کیا جاتا ہے کہ یہ ابھی بھی نافذ ہے۔ اس کا سبب اس شخصیت کا اثر ہے جس نے یہ فتوی جاری کیا تھا۔
اور وین اسٹیٹ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر خالد بیدون نے وائس آف امریکہ کو بتایاکہ خمینی کا فتوی بہت وزن رکھتا ہے کیونکہ انکے نہ صرف پیرو کار بہت ہیں بلکہ دنیا بھر میں شیعہ کمیونٹی ان کا بہت احترام بھی کرتی ہے۔
فتویٰ ان کے نزدیک ایک مفتی یا اسلامی قوانین جاننے والے سکالر کی رائے بھی ہو سکتی ہے اور اسلامی اداروں کی جانب سے ایک باضابطہ و رسمی اعلان بھی ہو سکتا ہے۔
جارج ٹاون یونیورسٹی میں اسلامک سٹڈیز کے پروفیسر جوناتھن براون اس بارے میں کہتے ہیں۔
’’ فتوی ایک سادہ سا ذاتی معاملہ ہو سکتا ہے جیسے نماز نہ پڑھنا، یا پھر یہ کسی متنازعہ معاملے پر رائے ہو سکتی ہے جیسے ایمبریو کی کلوننگ یا جنسی تبدیلی کے لیے جراحت‘‘
فتویٰ کیا ہے اور اسکی شیعہ فقہہ یا فقہہ جعفریہ میں اہمیت کیا ہے؟ اس بارے میں وائس آف امریکہ کے قمر عباس جعفری نے شیعہ اسکالر ڈاکٹر سخاوت حسین سے گفتگو کی جو ایران سے فارغ التحصیل ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سخاوت نے کہا کہ اگرچہ اس وقت کی مناسبت سے یہ فتویٰ درست تھا لیکن اس فقہہ کے مطابق جب فتوی دینے والا مفتی انتقال کر جاتا ہے تو فتوی بھی مر جاتا ہے یا ختم ہو جاتا ہے اور کسی دوسرے مرجع تقلید یہاں تک کہ خود ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ خامنائی نے بھی اسکی توثیق نہیں کی ہے اس لئے اب اس فتوے کا کوئی وجود باقی نہیں ہے۔
اسکے علاوہ انہوں نے کہا کہ فتویٰ جس ملک میں جاری کیا جاتا ہے اور وہاں فتویٰ دینے والے مفتی کی حکومت ہو یا وہ حاکم شرع ہو تو صرف اسی ملک تک اس فتوے کا اطلاق ہوتا ہے۔اور وہ بھی واجب نہیں ہے بلکہ اختیاری ہے۔ لیکن کسی دوسرے ملک میں جہاں مختلف قوانین ہوں اس فتوے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اور شیعہ فقہا ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ آپ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کے قانون کے مطابق زندگی گزاریں۔
امیریکن یونیورسٹی میں اسلامک اسٹڈیز کے ابن خلدون شعبے کے سربراہ ڈاکٹر اکبر احمد نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسی ایک ملک میں جاری ہونے والے فتوے پر کسی دوسرے ملک میں عمل نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر ملک کے اپنے الگ قوانین ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فتویٰ کوئی قانونی فرمان نہیں ہوتا ہے۔ قانونی فرمان صرف عدالتیں جاری کرتی ہیں۔ تاہم انکے بقول بعض فتووں کا اس ملک میں جہاں وہ جاری کئے گئے ہیں اتنا ہی وزن ہوتا جتنا وہا ں کے قانون کا۔