سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والی تصویروں میں شام کے مغربی حصے میں واقع ایک بڑی فوجی تنصیب میں بڑے پیمانے پر تباہی کے آثار ملے ہیں جہاں حال ہی میں اسرائیلی طیاروں نے حملہ کیا تھا۔
جنگ کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والے شام کے مبصرین نےاتوار کےروز کہا کہ اسرائیل نے اپنی اس فضائی کارروائی میں ایرانی حمایت یافتہ ایک عسکری گروپ کے اسلحہ ڈپو کو ہدف بنایا تھا جہاں درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے سینکڑوں میزائل رکھے گئے تھے۔
شام کے سرکاری میڈیا نے طرطوس اور حماہ نامی شہروں کے قریب جمعرات کو ہونے والے اس حملے کے متعلق بتایا کہ اس سے دو افراد زخمی ہوئے اور قریبی جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی۔ میڈیا کا مزید کہنا تھا کہ میزائل بحیرہ روم سے فائر کیے گئے تھے اور ان میں سے زیادہ تر کو مار گرایا گیا تھا۔
شام کی حزبِ اختلاف کے سرگرم ارکان نے کہا ہے کہ اس حملے میں طرطوس اور حماہ کے درمیان واقع مصاف نامی قصبے کے قریب اسلحہ کے ایک ڈپو اور سائنسی تحقیقی مرکز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ حزب اختلاف کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ قصبہ حکومت کا ایک مضبوط گڑھ ہے۔
اسرائیل کے ایک مقامی اخبار'ٹائمز آف اسرائیل' نے اپنی اتوار کی اشاعت میں پلینٹ لیبز پی بی سی اور اورورا انٹل کی جانب سے فراہم کردہ تصاویر شائع کی ہیں۔ یہ خبروں سے متعلق خفیہ معلومات فراہم کرنے والا ایک آزاد نیٹ ورک ہے ۔
ارورا انٹل نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ سیٹلائٹ کی تصاویر کے ابتدائی تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ فضائی حملوں سے کچھ عمارتوں اور علاقوں کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔ٹویٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سائنٹیفک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ سینٹر کے آس پاس کے علاقوں کو دھماکوں کے باعث بھڑک اٹھنے والی بڑے پیمانے کی آگ سے بھاری نقصان پہنچا۔
تصویروں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تنصب کے آس پاس سبزے کا کچھ حصہ بھی جل گیا ہے۔
شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والے برطانیہ میں قائم حزبِ اختلاف کے گروپ 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' میں جنگی امور کے سربراہ رامی عبدالرحمٰن نے کہا ہے کہ اسرائیل نے کئی ٹھکانوں پر حملہ کیا لیکن اس کا سب سے اہم ہدف ہتھیاروں کا ایک بڑا ڈپو تھا جس میں درمیانی فاصلے تک مار کرنے اور اپنے اہداف کی جانب درستگی سے پرواز کرنے والے تقریباً ایک ہزار میزائل ذخیرہ کیے گئے تھے۔
رامی کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد پانچ گھنٹوں سے زیادہ وقت تک ڈپو میں دھماکوں کا سلسلہ جاری رہا۔
ان کے بقول جس علاقے میں اسلحہ ڈپو کو نشانہ بنایا گیا وہاں ایران کی نیم فوجی تنظیم پاسدارانِ انقلاب کی نگرانی میں زیر زمین میزائل بنانے والی ایک تنصیب بھی موجود ہے جسے ان حملوں سے کوئی نقصان نہیں پہنچا جس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اسے پہاڑوں میں گہرا کھود کر بنایا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں شامی فوج کا ایک کیپٹن ہلاک اور دیگر 14 زخمی ہوئے۔
رامی کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیلی حملوں کے بعد ہونے والے دھماکے ماضی کے مقابلے میں ہونے والی اسرائیلی کارروائی سے زیادہ شدید تھے۔اسرائیلی فوج کی جانب سے اس بارے میں سرکاری طور پر کچھ نہیں کہا گیا ہے۔
اسرائیل نے گزشتہ عشرے کی خانہ جنگی کے دوران شام کی حکومت کے زیرِقبضہ علاقوں کے اندر اہداف پر سینکڑوں حملے کیے ہیں ، لیکن اس طرح کی کارروائیوں کو اس نے شاذونادر ہی تسلیم کیا ہے۔
لیکن اس بار اسرائیل نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے شام کے صدر بشار الاسد کے اتحادیوں ، بشمول لبنان کے عسکری گروپ حزب اللہ اور ایران کی سرپرستی میں کام کرنے والی دوسری ملیشیا تنظیموں کے ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے عہدے دار ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ اس کے حملے شام میں ایران کی مداخلت کے خلاف ہیں۔
اس رپورٹ کا کچھ مواد خبر رساں ادارے' ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔