رسائی کے لنکس

آئی ایس پی آر کا ردِ عمل: ’اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان میں کشیدگی بڑھ رہی ہے‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ نازک وقت میں فوج کی اعلیٗ قیادت کو متنازع بنانے کی کوشش انتہائی افسوس ناک ہے۔ فوج میں چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے 'انتہائی غیر ضروری بیان' پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

عمران خان کے فیصل آباد میں اتوار کو کیے گئے جلسے میں خطاب پر پیر کو آئی ایس پی آر کی جانب سے ردِعمل دیتے ہوئے کہا گیا کہ آرمی چیف کے انتخاب کے عمل کو متنازع بنانا ریاست اور ادارے کے مفاد میں نہیں ہے۔ فوج آئین کی بالادستی کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔

آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج کے سربراہ کے تقرر کا آئین میں واضح طریقۂ کار موجود ہے، اس کے باوجود سینئر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اس عہدے کو متنازع بنانے کی کوشش انتہائی افسوسناک ہے۔

تحریکِ انصاف کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا آرمی چیف کے تقرر پر بیان نئے سیاسی تنازعے کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ان کو اس بیان پر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی تنقید کا سامنا ہے۔

اتوار کو فیصل آباد میں تحریکِ انصاف کے جلسے سے خطاب میں عمران خان نے حکمران اتحاد کے رہنما نواز شریف اور آصف زرداری پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ انتخابات اس وجہ سے نہیں کرا رہے کیوں کہ نومبر میں نئے آرمی چیف کا تقرر ہونا ہے۔ یہ دونوں اپنا پسندیدہ آرمی چیف لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان کی فوج کے سربراہان کے تقرر کا معاملہ اگرچہ ماضی میں بھی زیرِ بحث رہا ہے تاہم سیاست دان اور اہم شخصیات جلسوں اور عوامی تقریبات میں اس معاملے پر رائے زنی سے گریز کرتے تھے۔

فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت لگ بھگ تین ماہ بعد 29 نومبر کو ختم ہورہی ہے۔ حکومت نے تاحال ان کی ایکسٹینشن یا نئے آرمی چیف کے تقرر کا کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔

’عمران خان ریڈ لائن کراس کرتے نظر آرہے ہیں‘

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی جلسے میں فوج کے سربراہ کے تقرر کا تذکرہ انتہائی متنازع الفاظ اور غیرذمہ دارانہ انداز میں کیا گیا ہو۔

تجزیہ نگار اور سینئر صحافی مظہر عباس کہتے ہیں کہ عمران خان آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر صرف سوال نہیں اٹھا رہے بلکہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر ان کی پسند کی تقرری نہ ہوئی تو وہ اسے قبول نہیں کریں گے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں مظہر عباس کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کے سربراہ کا یہ بیان نئے آرمی چیف کے تقرر سے قبل ہی اس معاملے کو متنازع بنانے کی کوشش ہے، جسے فوج کے حلقوں میں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا۔

'عمران خان کے خلاف کارروائی سے ان کی حمایت بڑھے گی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:10 0:00

انہوں نے کہا کہ فواد چوہدری نے ان کے بیان پر اگرچہ وضاحت کی ہے لیکن وہ اس بیان سے بہت مختلف ہے جو عمران خان نے جلسے میں کہا ہے۔ ان کے بقول بعض حلقوں کی نظر میں عمران خان ریڈ لائن کراس کرتے نظر آرہے ہیں۔

مظہر عباس نے کہا کہ اس سے قبل بھی عمران خان ’نیوٹرلز‘ کی اصطلاح کی تشریح کرتے رہے ہیں اور بظاہر لگ رہا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ اور عمران خان کے درمیان تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

’کوئی جنرل زیادہ یا کم محب وطن نہیں ہوتا‘

دفاعی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ عمران خان اس بیان سے اپنے حامیوں کو اس معاملے کی طرف لے کر جانا چاہتے ہیں، جب انہوں نے آرمی چیف کی حمایت کھو دی اور تحریکِ عدم اعتماد کی صورت میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے سبکدوش ہونے سے قبل نئے آرمی چیف کے تقرر کا اعلان ہو جائے گا اور اس وقت کی حکومت کو یہ استحقاق حاصل ہے کہ فوج کے سینئر ترین پانچ جنرلز میں سے کسی کا بھی انتخاب کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام سینئر جنرل ایک جیسا تجربہ اور صلاحیت رکھتے ہیں اور کوئی جنرل زیادہ محب وطن یا کم محب وطن نہیں ہوتا۔

’اسٹیبلشمنٹ اور تحریکِ انصاف کے تعلقات ابھی تک کشیدہ ہیں‘

مظہر عباس نے کہا کہ عمران خان نے اپنے اس بیان سے یہ تاثر دیا ہے کہ وہ آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے پسند بھی رکھتے ہیں اور سینئر جنرل میں وہ بھی شامل ہیں جنہیں وہ پسند نہیں کرتے۔

'مجھے ٹیکنیکل ناک آؤٹ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:44 0:00

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے وقت میں بیان کا آنا کہ جب ایک ماہ تک آرمی چیف کے تقرر کا اعلان ہونا ہے، اس معاملے کو متنازع بنانے کی دانستہ کوشش ہے۔ جس کو عسکری حلقے میں پسند نہیں کیا جا رہا۔

مظہر عباس کے مطابق عمران خان کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت میں توسیع نہ لیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ انتخابات کا اعلان موجودہ آرمی چیف کی سبکدوشی سے قبل ہوجائے۔ ان کے بقول ایسا لگ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور تحریکِ انصاف کے تعلقات ابھی تک کشیدہ ہیں اور اس کشیدگی میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔

’عمران خان دباؤ کے نتیجے میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں‘

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ بھی سمجھتی ہیں کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ آرمی چیف کے تقرر کے عمل کو اس قدر متنازع بنا دیا جائے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت میں توسیع نہ لے سکیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت کیوں کہ بہت سی چیزیں واضح نہیں ہیں، تو عمران خان دباؤ کے نتیجے میں اپنے مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ جنرل قمر جاوید باوجوہ کی سیاست ان کے سیاسی مفادات کے خلاف ہے۔

ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا کہ اس کے علاوہ عمران خان کی کوشش ہے کہ جو بھی نیا آرمی چیف آئے وہ اس قدر دباؤ میں ہو کہ فوج کے سیاسی کردار کو ان کے خلاف استعمال نہ کرسکے اور ان کے سیاسی حریفوں کی حمایت نہ کی جائے۔ عمران خان کے اس بیان کا ردِعمل آئے گا البتہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ان کے رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو جائے۔

XS
SM
MD
LG