یہ دو برس قبل 2020 کی بات ہے، جب یورپی ملک بلغاریہ کے پاکستان میں سفیر ایلکسنڈر بوریسو پارسیخوو سے متعلق خبریں منظر عام پر آئیں کہ انہیں مبینہ بدعنوانی کے الزامات کی وجہ سے واپس دارالحکومت صوفیہ طلب کر لیا گیا ہے۔
بلغاریہ کے سفیر کا نام سفارتی استثنا استعمال کرتے ہوئے برطانیہ سے ایک درجن سے زائد انتہائی مہنگی گاڑیاں درآمد کرنے کے کیسز میں بھی سامنے آیا۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی تعیناتی کے محض ایک سال بعد ہی اسلام آباد سے وطن واپسی کی یہی وجہ تھی۔
یہاں سے ایک اور کہانی کا بھی آغاز ہوتا ہے۔ بلغاریہ کے سفیر کے سفارتی استثنا پر منگوائی گئی 2014 ماڈل کی پُرتعیش بینٹلے ملسین وی ایٹ آٹومیٹک کار 31 مئی 2020 کو سندھ کے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ بھی ہو جاتی ہے البتہ اس کے بعد یہ گاڑی منظر عام سے غائب ہوگئی۔
اس دوران برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے پاکستان میں حکام کے ساتھ اسی ماڈل کی گاڑی کے وہیئکل آئیڈینٹی فیکیشن نمبر (وی آئی این) اور انجن نمبر کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ معلومات بھی کراچی میں حکام کو فراہم کی جاتی ہیں کہ لندن سے چوری ہونے کے بعد یہ گاڑی اس وقت کراچی کے پوش ترین علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے ایک بنگلے میں موجود ہے۔
اطلاع ملنے پر کسٹم حکام نے علاقہ مجسٹریٹ کی موجودگی میں ہفتے کو جمیل شفیع نامی شہری کے بنگلے پر چھاپہ مارا، جہاں سے گاڑی سندھ کی نمبر پلیٹ کے ساتھ کھڑی ہوئی ملی جب کہ انجن نمبر اور وی آئی این نمبر بھی گاڑی کا میچ ہو گیا۔
اس دوران جمیل شفیع سے کسٹم کے حکام نے گاڑی کے قانونی کاغذات طلب کیے، تو ان کابیان تھا کہ ان کو یہ گاڑی بیچنے والا شخص نوید بلوانی ہے اور نوید بلوانی سے ان کا معاہدہ ہوا تھا کہ وہ نومبر 2022 تک گاڑی کے تمام مطلوبہ کاغذات پورے کرکے جمیل شفیع کے حوالے کر دیں گے۔
کسٹم حکام نے قابلِ اطمینان جواب نہ دینے پر جمیل شفیع کو گرفتار کیا اور گاڑی بھی قبضے میں لے لی۔
اسی دوران کسٹم حکام نے قانونی دستاویزات پیش نہ کرنے پر نوید بلوانی کو بھی گرفتار کیا۔
نوید بلوانی نے حکام کو بتایا کہ انہوں نے جمیل شفیع اور نوید یامین نامی شخص کے ساتھ گاڑی کی خریداری کا معاہدہ طے کرایا تھا اور نوید یامین نے اس گاڑی کی رقم کیش اور پے آرڈرز کی شکل میں وصول کی۔
کسٹم حکام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسا ممکن نہیں کہ گاڑی کی رجسٹریشن سندھ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کے اہل کاروں اور افسران کی ملی بھگت کے بغیر ہوئی ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ سفارتی استثنا سے ملک میں لائی گئی گاڑیوں کی فروخت کے لیے وزارتِ خارجہ اور کسٹم کے محکمے کی جانب سے اجازت ناموں کے اجرا کے بعد ڈیوٹی اور ٹیکس کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔
کسٹم حکام نے مزید بتایا کہ جس وقت یہ گاڑی پاکستان لائی گئی تھی، اس وقت اس کی قیمت دو لاکھ 66 ہزار 320 ڈالرز تھی، جو چار کروڑ 14 لاکھ 39 ہزار 322 روپے بنتی ہے۔ اس وقت اس گاڑی کی درآمدی قیمت روپے کی قدر گرنے کے باعث پانچ کروڑ 85 لاکھ 90 ہزار 301 روپے ہوچکی ہے۔
اس کے بعد کسٹمز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، ایڈیشنل سیلز ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی سمیت سات مختلف اقسام کے ٹیکسز بھی اس گاڑی پر لاگو ہوتے ہیں، جس کے بعد اس کی موجودہ قیمت 30 کروڑ 74 لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملزمان کے خلاف اسمگلنگ اور کسٹمز ڈیوٹی سمیت دیگر ٹیکسز سے بچ نکلنے پر ایف آئی آر کا اندراج کرکے متعلقہ عدالت میں مقدمہ بھیج دیا ہے۔
دوسری طرف آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے رہنما ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ سفارتی استثنا کے تحت حاصل کی جانے والی اشیا کسٹمز کے عمل سے مکمل ہوکر ہی ملک میں پہنچتی ہیں۔ تاہم ایسی گاڑیاں پانچ سال کے استعمال کے بعد سفارت خانے کا عملہ بیچ سکتا ہے۔ اس کیس میں گاڑی بیرونِ ملک سے منگوانے کے محض ایک سال بعد ہی ممکنہ طور پر فروخت کر دی گئی۔ یہ کام سفارت خانے کی ملی بھگت کے بغیر ناممکن ہے۔
ان کے بقول یہی نہیں بلکہ گاڑی حاصل کرنے کے بعد اس کی رجسٹریشن بھی کرالی گئی۔ جو ایکسائز حکام کی مدد اور رشوت لینے کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی قوانین کے تحت ہی یہ گاڑی بیرونِ ملک سے پاکستان منگوائی گئی، یوں پاکستان میں بہرحال یہ گاڑی چوری کی ثابت نہیں ہوسکتی۔
ایک کسٹم افسر نے نام نہ ظاہرکرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ گاڑی چوری ہوئی یا نہیں اس کی تحقیقات برطانوی حکام نے کرنی ہے۔ لیکن دنیا بھر میں ایسے مافیاز اور گینگ کام کر رہے ہیں، جو برطانیہ یا کسی اور ملک سے گاڑی درآمد کرنے سے لے کر دوسرے ملک کی بندرگاہ سے کلیئر ہونے تک چوری کی رپورٹنگ نہیں کرواتے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جوں ہی گاڑی دوسرے ملک میں پہنچ جاتی ہے، تو گاڑی چوری کی رپورٹ اس ملک کے متعلقہ پولیس اسٹیشن میں جمع کرا دی جاتی ہے، جہاں سے گاڑی چلی تھی اور ایسا کرنے سے ان ممالک میں یہ افراد انشورنس کی رقم کا دعویٰ جیت لیتے ہیں جب کہ گاڑی کی اصل رقم بھی خریدار سے حاصل کر لی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے چند واقعات پہلے بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔
کسٹم کے افسر کا مزید کہنا تھا کہ ایسے مافیا کے تعلقات دونوں ممالک کے حکام سے بھی ہوتے ہیں اور یہ لوگ انتہائی منظم انداز سے چھوٹی سے لے کر بڑی اشیا کی اسمگلنگ کر رہے ہوتے ہیں۔